ایرانی فوج کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان اور بیروت میں پھٹنے والے پیجر ایک ایرانی کمپنی نے خریدے تھے اور اُسی نے حزب اللہ کو فراہم بھی کیے تھے۔ اس انکشاف سے ایران میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اب تک ایرانی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ دھماکوں سے پھٹنے والے پیجرز کی خریداری اور ترسیل میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔
مسعود اسد نے ایران کے سرکاری ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ایرانی کمپنی نے ایک معروف برانڈ کو بیچ میں رکھتے ہوئے یہ پیجر خریدے تھے۔ پانچ ہزار پیجرز خریدے گئے جن میں سے تین ہزار حزب اللہ کو فراہم کیے گئے۔
ایرانی فوج یعنی پاس دارانِ انقلاب کی القدس فورس کے عہدیدار کے مطابق بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ایرانی کمپنی نے پیجرز کی ڈلیوری لینے کے بعد اُنہیں چیک نہیں کیا، اُن کی بناوٹ کا جائزہ نہیں لیا گیا اور ہوئی حزب اللہ کے حوالے کردیے گئے۔
یاد رہے کہ 17 اور 18 ستمبر کو جنوبی لبنان اور بیروت کے متعدد علاقوں میں پیجرز پھٹنے سے 30 افراد جاں بحق اور 3 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
دھماکوں سے پھٹنے والے پیجرز کی ایرانی کمپنی کے ہاتھوں خریداری کی بات اس لیے بھی بہت پریشان کن ہے کہ بعض ذرائع کے مطابق القدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قانی سے ایران میں پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ ان پر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے بارے میں اسرائیلی فوج کو مخبری کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایرانی حکومت اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔