چلیے نام نہیں لکھتے! تاہم یہ ضرور لکھنے کی جسارت کرلیتے ہیں کہ شجاع، ظہیر اور فیض کی لگائی ہوئی پنیری آئی جے آئی کے خالق کی پنیری سے زیادہ بہتر طریقے سے پھل پھول کر ملکی سیاست میں گل کھلا رہی ہے۔ یہ اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی شخصیت کی راہ میں پلکیں بچھانے یا کسی کی راہ روکنے کے لیے اس کا خمیر گوندھا گیا ہے لہٰذا اس کے سارے مظاہرے، احتجاج اور لانگ مارچ اور دھرنے اسی گوندھے ہوئے خمیر کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تحریک انصاف نے اسلام آباد اور لاہور پر بیک وقت ہلہ بولا، تین روز تک اسلام آباد میں کاروبار بند اور انسانی زندگی مفلوج رہی، کوئی طالب علم اسکول جاسکا نہ مریض طبی امداد کے لیے اسپتال پہنچائے جاسکے۔ تحریک انصاف کا بیانیہ ہے کہ حکومت دھاندلی اور فارم47 کی پیداوار ہے اسے اقتدار کا کوئی حق حاصل نہیں اور قومی اسمبلی میں اس کا موقف ہے کہ وہ نئے انتخابات نہیں چاہتی، اب پھر معاملہ کیا ہے؟ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اس کے بانی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ باقاعدہ مذاکرات کرے جس میں مستقبل کا سیاسی نقشہ طے کیا جائے، اسٹیبلشمنٹ بڑی وضاحت سے ساتھ کئی بار کہہ چکی ہے کہ وہ مذاکرات نہیں کرے گی، سیاسی جماعتیں آپس میں مذاکرات کریں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی متعدد بار تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہیں مگر دوسری جانب سے تحریک تحفظ آئین سمیت سوائے عمران خان کے کسی کے پاس بات چیت کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست حکومت کو دبائو میں لانے کی ایک حکمت عملی ہے جس میں ابھی تک اسے کسی قسم کی کامیابی نہیں مل سکی، بلکہ اسے سیاسی نقصان ہی ہورہا ہے۔ تحریک انصاف دراصل چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ ایک جانب وہ چاہتی ہے کہ نو مئی کے حوالے سے معاملہ فوجی عدالت میں نہ جائے، یہ بھی چاہتی ہے کہ مجوزہ آئینی پیکیج میں آئینی عدالت اور فوجی عدالتوں کے تمام نکات نکال دیے جائیں، وہ عمران خان کی رہائی بھی چاہتی ہے اور نو مئی کے واقعات کا دفاع بھی کر رہی ہے لیکن اس میں ان نکات پر بھی کبھی کبھی یکسوئی بھی نظر نہیں آرہی، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی رہائی فی الحال تو نظر نہیں آرہی ہے، آگے چل کر کہیں معاملات سدھر جائیں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم معاملات مشروط انداز میں ہی سدھر سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کھو دینے کے بعد امریکی مداخلت کا جو بیانیہ اپنایا تھا یہ بیانیہ تو اب اپنی اہمیت کھو چکا ہے، ان کے پاس اپنی سیاسی مشکلات کے حل کے لیے اب سیاسی قوتوں کے ساتھ بات چیت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ معاملات کے حل کی کنجی کسی اور کے پاس نہیں، خود عمران خان کی جیب میں ہے۔ تحریک انصاف کے حالیہ لانگ مارچ اور مظاہرے کی ٹائمنگ نے بھی انہیں نقصان پہنچایا ہے کہ ملک میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس ہونے جارہی ہے اور تحریک انصاف کا احتجاج اس میں خلل کا باعث بن رہا ہے اس سے قبل بھی وہ ماضی قریب میں سی پیک کے معاملے میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں اب شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہ اجلاس میں خلل ڈال رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو وفاق کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش سیاسی افراتفری کی کھلی کہانی میں مزید اضافہ، کسی بڑے فساد کی بنیاد تو رکھ سکتی ہے عمران خان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس احتجاج کے باعث شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس پر اس کے اثرات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں، اور یہ طرز عمل ملک میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے حق رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی رکاوٹ کا باعث بنا ہے۔
بلاشبہ احتجاج کا حق کسی بھی جمہوریت کی پہچان ہے اور پی ٹی آئی اس حق کو استعمال کرنے میں کوئی رعایت نہیں رکھتی۔ تاہم، یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ پارٹی کے احتجاج کا مقصد حقیقی سیاسی گفتگو نہیں بلکہ افراتفری پھیلانا ہے۔ خلل کا یہ رجحان پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کی ایک واضح خصوصیت بن گیا ہے۔ 2014 کے دھرنے کے بعد ہی سے پی ٹی آئی نے حکمرانی کو روکنے کے فن میں مہارت حاصل کی ہے، سیاسی عدم استحکام کو ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا ہے ایس سی او کا سربراہ اجلاس ایک اہم سفارتی تقریب ہے جو پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت کو بڑھا سکتی ہے۔ بدامنی پیدا کرنے کی دھمکی دے کر جس طرح معیشت کے استحکام کے خلاف اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے یہ خود اس کے لیے نیک شگون نہیں ہے اس کا تازہ ترین احتجاج اسے مہیا کی جانے والی مراعات اور سہولت کی آخری ہچکی بن سکتا ہے، خاص طور پر عمران خان کی قانونی مشکلات کے حوالے سے۔ پی ٹی آئی جس طرح عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش میں ہے یہ ساکھ اس کی طویل مدتی سیاسی عملداری کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ درحقیقت پارٹی کی اپنی صفوں میں سے کچھ لوگوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ افراتفری کی حکمت عملی الٹا اثر کر سکتی ہے۔ اس کے احتجاج کی پالیسی اور میدان جنگ سجانے کی حکمت عملی اس کو ممکنہ اتحادیوں سے محروم بھی کر سکتی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس صرف ایک سفارتی اجتماع نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اہم علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے اور ایک مستحکم اور قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا ایک موقع ہے۔ اس ایونٹ کی کامیابی کو خطرے میں ڈالنے والی کوئی بھی رکاوٹ نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بلکہ اس کی معاشی بحالی کو بھی نقصان پہنچائے گی۔ مختصر مدت کے سیاسی فائدے کے لیے پی ٹی آئی کا یہ سب کچھ خطرے میں ڈالنا دور اندیشی اور ذمے داری کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جمہوریت میں احتجاج کے حق کو ذمے داری کے ساتھ متوازن ہونا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس طرح کے احتجاج سے عوامی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ کیا اب وقت نہیں آیا کہ تحریک انصاف اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔