سستی بجلی پیدا کرنا جرم ہے

407

کراچی میں دہشت گردی کا شکار چینی انجینئرز بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں شامل تھے۔ کیا وہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے تیار تھے انہوں ایسا کیا فیصلہ کیا کہ انہیں راستے کا کانٹا سمجھ لیا گیا۔ دراصل نجی پاکستانی آئی پی پیز نے پاکستانی عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہ مارا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ان آئی پی پیز کی جانب سے گزشتہ دس برس میں پاکستانی عوام سے ایک کھرب روپے سے زائد کی رقم بجلی کے بلوں میں وصول کی گئی ہے۔ اب اگر عوام کو دس سال تک بھی مفت بجلی دی بھی جائے تو بھی عوام کا یہ نقصان پورا نہیں ہوگا۔ حکومت نے 2015 سے 26 آر ایل این جی گیس اور آر ایف او سے چلنے والے آزاد بجلی تقسیم کار اداروں (آئی پی پیز) کو کیپسٹی چارجزکی مد میں ایک کھرب روپے کی ادائیگی کی ہے۔ گیس/ آر ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹس کو 10 برس میں کیپسٹی چارجز کی مد میں 536.30 ارب روپے ادا کیے گئے، جن میں سے فوجی کبیر والا کو 14.271 ارب، لبرٹی دھرکی پاور لمیٹڈ کو 25.5 ارب روپے، روش پاک پاور لمیٹڈ کو 60 ارب روپے، اچ پاور لمیٹڈ کو 60 ارب روپے دیے گئے۔ حب پاور کمپنی لمیٹڈ کو 205.034 ارب روپے، کوٹ ادو کو 167 ارب روپے اور 8.740 ارب روپے، کوہ نور انرجی کو 15.087 ارب روپے، لال پیر انرجی کو 52.081 ارب روپے، پاک جنرل لمیٹڈ کو 50.834 ارب روپے، صبا 33 ارب روپے، پاور کمپنی لمیٹڈ کو 50.834 ارب روپے ادا کیے گئے۔ اٹلس پاور کو 43.173 ارب روپے، اٹک جنرل کو 26.882 ارب روپے، لبرٹی پاور ٹیک لمیٹڈ کو 46.216 ارب روپے، نارووال انرجی لمیٹڈ کو 53.909 ارب روپے، نشان چونیاں پاور لمیٹڈ کو 41.420 ارب روپے اور نشاط پاور لمیٹڈ کو 91.91 ارب روپے اداکیے گئے۔ سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت اجلاس کے دوران سینیٹر شبلی فراز نے سابق وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کی روش پاور لمیٹڈ، اچ پاور اور حبکو پاور کو بھاری کیپسٹی ادائیگیوں پر سوالات اٹھائے۔ دوسری جانب آئی پی پیز کے وکیل ایجنٹوں کو یہ تکلیف ہے کہ کہیں پاکستانی عوام کو سستی بجلی نہ مل جائے۔ اسی لیے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ سولر کے ذریعے ہر سال نیٹ میٹرنگ کی مد میں 1200 میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں باقی صارفین پر 100 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ (ہمارا اندازہ ہے کہ اب سولر سسٹم لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا وقت آگیا ہے اور حکومت ان کو سولر سسٹم لگانے سے باز رکھنے کے لیے ان پر 100 فی صد سے 200 فی صد تک ٹیکس لگانے کے بارے میں سوچ رہی ہے)۔

وفاقی وزیر نے یہ تو نہیں بتایا کہ کتنے فی صد ٹیکس لگایا جائے گا۔ اگر اس قسم کے وزیر ہوں تو پاکستان کو دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسے بھارت سے دوستی کر لینی چاہیے کیونکہ پاکستان کو کمزور کرنے کا فریضہ بھارت کے بجائے ہمارے اپنے وزیر اور محکمے انجام دے رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک عام شہری لاکھوں روپے خرچ کر کے سولر سسٹم لگاتا ہے۔ اس میں بھی حکومت کو ٹیکس ملتا ہے فائدہ ہوتا ہے۔ جبکہ بجلی کی فراہمی اور سستی فراہمی حکومت کا فرض ہے، لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت اور اس کے عہدے داروں کو یہ فکر ہے کہ عام آدمی کو کہیں سستی بجلی نہ مل جائے، اس لیے ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ ایسے ہرکام کی حوصلہ شکنی کی جائے جس سے توانائی کے ذرائع سستے ہوں۔ سولر سسٹم لگانے والے دن میں بجلی بناتے ہیں۔ زائد بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ذریعے نیشنل گرڈ میں جاتی ہے۔ کمپنی صارف سے نہایت کم نرخ پر بجلی خرید کر تھرمل بجلی کے ریٹ پر دوسروں کو فروخت کرتی ہے یعنی جو بجلی سولر سسٹم والا سورج سے بناتا ہے اسے یہ لوگ پٹرو لیم سے بننے والی بجلی کے ریٹ پر دوسرے صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ سولر سسٹم والا صارف کیپسٹی چارجز بھی نہیں لیتا، فیول ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ بھی نہیں کرتا۔ رات کو جو بجلی وہ استعمال کرتا ہے اس کا بل فروخت کردہ بجلی سے ایڈجسٹ ہوتا ہے اس کے باوجود اس کے پاس ہزاروں کا بل آتا ہے۔

دوسری جانب دیگر صارفین کو 100 ارب روپے کا بوجھ بجلی کمپنی اور حکومت ڈال رہی ہے کیونکہ وہ اس میں کئی سو گنا منافہ کما رہی ہے حکومت جس بھاؤ سولر سسٹم والے سے بجلی خریدتی ہے اس سے ایک روپے زیادہ دوسرے کو بیچے تو 100 ارب روپے کا بوجھ صارف پر نہیں پڑے گا۔ لیکن حکومت ایسا کیوں کرے۔ اویس لغاری کے اس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ خود ان کی آئی پی پی بغیر بجلی پیدا کیے اربوں روپے کیپسٹی چارجز کے نام پر جو وصول کر رہی ہے۔ اگر صارفین کو سولر بجلی کی اجازت دے دی جائے، تو یہ منافع ان کو نہیں مل سکے گا جو وہ بغیر بجلی پیدا کیے بغیر کچھ خرچ کیے کما رہے ہیں۔ ایسی کمائی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتی یعنی وہ پروڈکٹ جو آپ نے بیچی ہی نہیں اس کی قیمت آپ وصول کر رہے ہیں۔

دوسری جانب سستی بجلی پیدا کرنے والوں کو قتل کیا جا رہا ہے، چینی انجینئروں کی مثال سامنے ہے۔ اب اگر سولر سسٹم عام ہو جائے گا تو سستی بجلی کو مہنگا بیچنے کا سنہری موقع کیسے ہاتھ آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی میں کہیں نہ کہیں مقامی آئی پی پیز کا ہاتھ بھی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ وہی چینی انجینئرز بنتے ہیں جو سستی توانائی والے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں اویس لغاری ہوں یا کوئی اور وزیر توانائی یہ لوگ سرمایہ داروں کے، جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں عوام کے لیے تو بجلی نہایت مہنگی ہے لیکن ان کے بجلی کے بل بھی عوام کی جیب سے نکالے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بجلی کو مہنگا کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور ان منصوبوں میں چیئرمین ایف بی آر برابر کے شریک ہوتے ہیں، جو انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے ماورا فیصلے کیا کرتے ہیں۔ حال ہی میں چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ 10 لاکھ روپے کے لین دین کرنے والوں کو ایف بی آر کو بتانا ہوگا کہ یہ لین دین کس مقصد کے لیے ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اس قسم کے فیصلوں کا مقصد پاکستان میں کاروبار کا گلا کوٹنے کے لیے نہیں ہے اور کیا یہ ایف بی آر کے افسران کے لیے رشوت کے نئے راستے کھولنے کے لیے نہیں ہے۔ پاکستانی کاروبار میں 10 لاکھ کی رقم معمولی رقم ہے بینکوں کے ذریعے سودے ہوتے ہیں اور رقم ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتی ہے یہ سب کچھ ایف بی آر کو معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود ایف بی آر کی جانب سے ایسی حرکت کا مقصد یہ ہے کہ بینکنگ سسٹم کے ذریعے کاروبار ہو ہی نہیں اور اگر کاروبار ہو تو جائز راستوں سے ادائیگی نہ ہو

ان کی جانب سے یہ حرکت جان بوجھ کر کی گئی ہے۔ یہ سمجھنا کہ انہیں یہ نہیں معلوم تھاکہ ان کے اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کے جسم میں دور غلامی کے کسی انگریز آقا کی روح حلول کر گئی ہے۔

پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے غیر موزوں ملک بنانے میں ایف بی آر کے رشوت خور افسران اور اس قسم کے آرڈر جاری کرنے والے چیئرمین حضرات کا ہاتھ ہے۔ سولر سسٹم پر اضافی ٹیکس کا مقصد یہی ہے کہ ملک میں سستی بجلی کے تمام منصوبوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سستی بجلی کے تمام منصوبوں کو سازشوں کے تحت متنازع بنایا گیا یعنی کالا باغ، ڈیم بھاشا ڈیم وغیرہ اور اس طرح کے دیگر ڈیمز کو ہمیشہ سیاسی طور پر متنازع بنانے کی کوشش میں انہیں کامیابی ملی۔ اب اگر سولر سسٹم سے ہر سال بجلی کی پیداوار میں 1200 میگا واٹ اضافہ ہو رہا ہے تو ایف بی آر کو اور وزیر توانائی کو تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ ایف بی آر کا سارا کام ڈیجیٹل ہوتا ہے، ٹیکس جمع کرنے کا کام تو اب مشینیں کر رہی ہیں اور اس کے لیے وہاں پر بڑے پیمانے پر جو بھرتیاں ہوئی ہیں اس کی چھانٹی ہونی چاہیے اور چھانٹی کا طریقہ کار یہ ہونا چاہیے کہ چیئرمین سے لے کر نیچے تمام افسران تک چھانٹی کی جائے۔ وزیر خزانہ کی موجودگی میں چیئرمین ایف بی آر کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس عہدے کو ختم کیا جائے اور بورڈ کے ارکان کی جگہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ارکان کو دی جائے تاکہ تنخواہ اور مراعات کی بچت ہو، ملکی خزانے پر بوجھ کم ہو اور رشوت لینے والے کم سے کم ہوں۔ پارلیمنٹ کے اراکین پر مبنی کمیٹی پالیسی سازی کریں اس طرح نیپرا، اوگرا اور پیمرا اور دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز کی ذمہ داری بھی اراکین پارلیمنٹ کو دی جائے تاکہ قومی خزانے کا بوجھ کم سے کم ہو اور ان اداروں کے اراکین جو اپنی قابلیت اور صلاحیت سے زیادہ مراعات حاصل کرتے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ بنتے ہیں وہ کم سے کم ہو۔ دوسری جانب عوام کے نمائندے جب اداروں میں آئیں گے تو انہیں عوام کے مفادات کا خوف رہے گا، کمپنیوں کے مفادات کو وہ عوام کے مفادات پر ترجیح نہیں دیں گے۔ کیونکہ انہیں کم از کم اس بات کا تو خوف ہوگا کہ عوام سے انہیں آئندہ انتخابات میں ووٹ لینے ہیں عوام کے پاس واپس جانا ہے تو ایسا کام نہیں کریں گے کہ جس سے عوام کے پاس جائیں تو انہیں جوتے پڑیں یا عوام ناراض ہوں۔ پاکستانی بیوروکریٹس کا کام تو عوام کا خون نچوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔