خان صاحب کی غیر سنجیدہ سیاست

339

کیا یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان کی مقبول جماعت پی ٹی آئی کے تابوت میں اب آخری کیل ٹھوک دی جائے۔ خان صاحب کی کال پر جن جلسوں کا اعلان کیا گیا اُسے حکومتی روکاوٹوں نے ناکام بنا دیا ہے، مسلسل دوسری بار خان صاحب کی کال پر عوامی جلسوں کی ناکامی نے یقینا خان صاحب کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت خان صاحب جیل میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفع کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بات تو کافی حد تک طے ہے کہ خان صاحب کی وکلا ٹیم خان صاحب کو رہا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے البتہ سیاست کا رنگ خان صاحب کی وکلا ٹیم پر خوب جم رہا ہے۔ دراصل ہماری نظر میں خان صاحب آج بھی سیاست کی اُٹھک بیٹھک سے ناواقف ہیں انا کا خول جذباتی اندازِ سیاست نے خان صاحب کی جماعت کی مقبولیت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے، ساتھ ہی چند ایسے لوگ جن پر خان صاحب نے ضرورت سے زیادہ بھروسا کیا نظریاتی لوگوں کو اہمیت دینے کے بجائے سیاسی خانہ بدوشوں کو اہمیت دے کر خان صاحب نے اپنی جماعت کو خود ہی دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تودوسری جانب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے خان کی سیاست کو اشتعال انگیزی کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

لاہور جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے وزیر اعلیٰ کے پی کے امین گنڈا پور نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک اور نو مئی کرنے کی جرأت و ہمت رکھتے ہیں۔ کیا ایک وزیر اعلیٰ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ڈنڈا بردار قافلے کے ساتھ کسی جلسے میں اسلحہ اُٹھائے ریاستی مشینری کو نقصان پہنچائے، اپنے لوگوں کو اشتعال دلائے اور ریاست کے خلاف زہرہ اُگلے یقینا ایک وزیر اعلیٰ کو یہ زیب نہیں دیتا۔ یہ وہ طرز سیاست ہے جس نے پی ٹی آئی کو تالا اور خان صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مرد اور خواتین سیاستدان سب ہی اس وقت ہماری نظر میں عمران خان کے لیے مزید مشکلات بڑھا رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خان کے نظریے اور اس کی سیاست کو صرف شغل میلہ سمجھ کر انجوئے کر رہے ہیں جبکہ نظریاتی لوگ اپنے گھروں میں یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں اُفسوس کی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کی خواتین سیاستدان ایک بار پھر سیاست کو ولیمہ سمجھ کر انجوئے کر رہی ہیں جس پر خان صاحب کی مکمل خاموشی لمحہ فکر ہے ریاست مدینہ کی جدوجہد میں خواتین کا کردار کیا ایسا تھا زرتاج گُل، صنم جاوید صاحبہ تو ایسا لگتا ہے کسی فلم کی شوٹنگ پر آتی ہیں۔

یہ وقت یقینا خان صاحب کے لیے مشکل ہے جس کو صبر استقامت کے ساتھ خان صاحب کو گزارنا ہوگا کسی بھی ایڈونچر کی جانب جانے کا مقصد مزید تنگ گلی میں اپنے آپ کو سزا دینا ہوگا دراصل یا تو خان صاحب کو غلط گائیڈ کیا جارہا ہے یا پھر خان صاحب گھبراہٹ میں مبتلا ہوکر غلط سیاسی حکمت عملی کا ایک بار پھر استعمال کر رہے ہیں۔ آج خان صاحب کو سب سے زیادہ اُس چیز کی ضرورت ہے جو خان صاحب اپنے ووٹر سے کہتے آئے ہیں کہ۔ ابھی آپ کو گھبرانا نہیں ہے۔ ہماری نظر میں اس وقت خان صاحب کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے یہ وہ وقت نہیں جب آپ کی ایک کال پر لوگ گھروں سے نکل آتے تھے اس وقت آپ کے کئی کارکنان جیل میں ہیں تو کئی لاپتا ہیں جن کی فیملیاں بے یارو مدد گار دکھ میں مبتلا ہیں جس پر آپ کے اراکین پارلیمنٹ کی خاموشی قابل مذمت ہے ایسے حالات میں آپ مزید کارکنان کو اپنی انا کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ وقت کارکنان سے قربانی کا نہیں بلکہ آپ کی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ و سینیٹ سے قربانی کا وقت ہے آپ کے اراکین سرکاری مراعات کے مزے لے رہے ہیں کے پی کے مسائل میں جل رہا ہے، بے روزگاری، علاج، تعلیم کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں اور آپ کے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور صاحب دبنگ کے سلمان خان بنے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر آپ کی کوئی گرفت نہیں اور آپ ہیں کہ غریب عوام سے اپنی رہائی کے لیے قربانی مانگ رہے ہیں۔

محترم خان صاحب یہ وقت سیاسی جلسوں احتجاج تحریکوں کا نہیں ہے سب سے پہلے تو یہ کہ آپ اگر بے گناہ ہیں تو اللہ آپ کا سب سے بڑا جج ہے جو فیصلہ آپ کے حق میں ہی دے گا دوسری جانب اپنی وکلا ٹیم کو سیاست سے دور کھتے ہوئے کسی قابل ٹیم کا انتخاب کریں ساتھ ہی اپنے نظریاتی لوگوں کو سامنے لائیں جو عوام میں آپ کو اور آپ کی جماعت کے نظریے کو زندہ رکھ سکیں دوسری اہم بات وزیر اعلیٰ کے پی کے کو عوامی مسائل پر توجہ دینے اورصوبے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے زور ڈالیں یقینا اس وقت آپ کی جماعت کو مسائل کا سامنا ہے جس کے لیے آپ کو سنجیدہ سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔