پاکستان اور سعودی عرب نے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، جمعرات کے روز اس حوالے سے اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے مابین 2.2 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی 27 یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ اس ضمن میں منعقدہ تقریب میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی۔ تقریب کے دوران سیمی کنڈکٹرز کی تیاری کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے جب کہ ٹیکسٹائل، تعمیرات، ٹرانسپورٹ، توانائی، پٹرولیم، سائبر سکیورٹی، مصالحہ جات، سبزیوں کی برآمد میں اضافہ میں تعاون کے لیے اتفاق ہوا ہنر مند افرادی قوت سے متعلق مفاہمتی یادداشت کا تبادلہ کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے معاہدے نئی پیشرفت ہیں، سعودی عرب کی 2 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ دریں اثنا سعودی وزیر سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح نے پاکستان سعودی عرب بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارے لیے دوسرا گھر ہے، ہم دوست نہیں ایک خاندان ہیں، پاکستان سعودی سرمایا کاروں کے لیے انتہائی پرکشش مقام ہے، حکومت کی اقتصادی اصلاحات قابل تحسین ہیں، پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے پر عزم ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے یقین دہانی کروائی کہ سعودی سرمایہ کاری کے لیے سرخ فیتے والے تمام معاملات سرخ قالین والے رویئے میں بدل جائیں گے۔ میرے خیال میں پاکستان اور سعودی عرب مل کر لا محدود کام کر سکتے ہیں، اسی طرح سے جیسے ہمارے معاشی اور تاریخی تعلق کی کوئی حد نہیں ہے، دونوں ممالک کے قیام سے ہی ہمارے سیاسی تعلقات انتہائی اعلیٰ درجے کے ہیں۔ سعودی عرب معاشی استحکام میں پاکستان کا شراکت دار رہے گا اور اس کی پچاس سے زائد کمپنیاں پاکستان میں کاروباری مواقع پر بات چیت کا حصہ بن رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ تجارت میں تقریباً 80 فیصد اضافہ ہوا ہے جو 2019 ء میں 3 ارب ڈالر سے بڑھ کر آج 5.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ فورم سے خطاب کرتے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاک سعودی عرب اسٹرٹیجک شراکت داری نئے دور میں داخل ہو گئی، پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ عالمی سرمایہ کاروں کو راغب کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے بلکہ کاروبار کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہے، نجی شعبے کی شراکت داری سے ملکی معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
حکومت پاکستان کی کاوشوں اور ایس آئی ایف سی کا تعاون ثمر آور ہو رہے ہیں چنانچہ سعودی وزارت سرمایا کاری کے وفد کا یہ تیسرا دورۂ پاکستان ہے سعودی وزیر برائے سرمایا کاری خالد الفاطح کی زیر قیادت تین روزہ دورے پر پاکستان آنے والے اس وفد سے پہلے بھی اپریل اور مئی میں اس وزارت کے وفود پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں جن میں پاکستان میں سعودی سرمایا کاری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور اس لحاظ سے وفد کے حالیہ دورے اور اس کے دوران مفاہمت کی 27 یادداشتوں پر دستخط سابق دو دوروں کا حاصل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اس تیسرے دورے میں بھی اگرچہ ابھی محض مفاہمت کی یادداشتوں پر ہی دستخط کئے گئے ہیں اور باقاعدہ معاہدوں کا مرحلہ ابھی باقی ہے جس کے بعد ان معاہدوں پر عمل درآمد کے مراحل شروع ہوں گے تاہم ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر مفاہمت کی 27 یادداشتوں پر دستخط بھی مستحسن اور قابل قدر پیش رفت قرار دی جائے گی چنانچہ اس پر حکومتی زعما کی جانب سے شادیانے بجانے کا جواز بھی تلاش کیا جا سکتا ہے تاہم اس ضمن میں یہ توجہ دلانا شاید بے جا نہ ہو گا کہ ملک میں معاشی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شدید سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی کی کیفیت سے نجات حاصل نہ کی جا ئے اس لیے لازم ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین خصوصاً اقتدار میں شراکت دار جماعتیں اس جانب بھی توجہ مبذول کریں سیاسی کشیدگی کے خاتمہ کے لیے باہمی رابطے بڑھائے جائیں اور مل جل کر مسائل اور اختلافات کا حل تلاش کیا جائے جس کے لیے لازم ہے کہ قومی اور ملکی مفادات کو ذاتی اور جماعتی مفادات پر ترجیح دینے کا حوصلہ فریقین اپنے اندر پیدا کریں…!
جہاں تک نئی بیرونی سرمایا کاری کا تعلق ہے اس کا خیر مقدم یقینا کیا جانا چاہئے تاہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ ملک میں پہلے سے موجود بہت سی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور بہت سی مزید کی بندش کی اطلاعات ہیں حکومت کو نئی خصوصاً بیرونی سرمایا کاری کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان اسباب کا جائزہ بھی لینا چاہئے جو پہلے سے موجود سرمایا کے ملک سے فرار کا باعث بن رہے ہیں، ان میں سے ایک نہایت اہم سبب کی نشاندہی پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے تقریب میں اپنی تقریر کے دوران کی ہے اور اس کے خاتمہ کی یقین دہانی بھی سعودی سرمایا کاروں کو کرائی گئی ہے، جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سعودی سرمایا کاروں کے لیے سرخ فیتے والے تمام معاملات سرخ قالین والے رویے میں بدل جائیں گے۔ یہ معاملہ یقینا نہایت اہم اور ملک میں کاروبار کے فروغ اور صنعتی سرمایا کاری میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ پاک فوج کے سربراہ نے سرخ فیتے والے جن معاملات کے سرخ قالین میں بدل جانے کی یقین دہانی سعودی عرب کے سرمایا کاروں کو کرائی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی دیگر ممالک اور خود پاکستان کے سرمایا کاروں کو کیوں دستیاب نہیں ہو سکتی تاکہ ملک میں اندرون و بیرون ملک سے سرمایا کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے، کاروباری حالات بہتر ہوں، صنعت اور تجارت دونوں پھلیں پھولیں اور ملک میں معاشی استحکام کے راستے کھلیں جس کے لیے ہمارے حکمران اور ارباب اقتدار دنیا بھر میں منتیں کرتے پھرتے ہیں اگر صرف سرخ فیتے اور بیورو کریسی کی رکاوٹیں دور کر دی جائیں تو یقین ہے کہ صنعت و تجارت، زراعت اور دیگر بے شمار شعبوں میں سرمایا کاری ہی میں کئی گنا اضافہ نہیں ہو گا بلکہ روز گار کے اتنے وافر مواقع دستیاب ہوں گے کہ پاکستانی نوجوانوں کو جان جوکھوں میں ڈال کر روز گار کی خاطر بیرون ملک فرار کے راستے تلاش نہیں کرنا پڑیں گے، یہاں شاید اس جانب توجہ دلانا بھی بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے حکمران خصوصاً شریف خاندان اور اس کے زیر اثر سرمایا کار خود بیرون ملک سرمایا کاری اور ملکی سرمایا دوسرے ممالک کو منتقل کرنے کی روش ترک کر کے خود پاکستان میں سرمایا کاری کریں، صنعتیں لگائیں اور دیگر کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لیں تو ان شاء اللہ انہیں بیرونی دنیا سے سرمایا کاروں کو پاکستان میں سرمایا کاری کے لیے منت سماجت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر پاکستانی سرمایا کاروں کو سہولتیں فراہم کی جائیں، حکمران اشرافیہ اپنا سرمایا پاکستان منتقل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو بیرون ملک پاکستانیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی جنہوں نے صرف ایک ماہ میں متوقع سعودی سرمایا کاری سے ڈیڑھ گنا زیادہ زر مبادلہ پاکستان روانہ کیا ہے۔ وہ اپنا سرمایا پاکستان میں مختلف منصوبوں میں لگا کر ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے میں موثر اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔