میت کی تدفین کے بعد اس کے لیے دعا و استغفار کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ سیدنا عثمان بن عفانؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو ٹھہرتے اور فرماتے:
’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی چاہو، اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیاجارہا ہے‘‘۔
(ابوداؤد، کتاب الجنائز)
حاکمؒ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور ذہبیؒ نے ان کی تائید کی ہے۔ امام نوویؒ نے لکھا ہے:
اس کی سند ’جیّد‘ (قابل قبول) ہے۔ علامہ البانیؒ نے اپنی کتاب الجنائز میں اس کو نقل کیا ہے، اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی بنا پر میت کی تدفین کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے کو درست قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
’’میں نے رسولؐ کو عبداللہ بن ذی النجادین کی قبر پر دیکھا۔ جب آپؐ تدفین سے فارغ ہوئے تو قبلہ رخ ہاتھ اْٹھا کر دعا کی‘‘۔
(صحیح ابوعوانۃ، فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، ابن حجر عسقلانی)
ابن ابی شیبہؒ نے اپنی کتاب ’المصنف‘ میں ایک باب باندھا ہے: فی الدعاء للمیت بعد ما یْدفَنْ وَیْسَوِّیہ عَلَیہ (اس چیز کا بیان کہ میت کو دفن کرنے اور اس کی قبر برابر کرنے کے بعد اس کے لیے دعا کی جائے) اس کے تحت انہوں نے متعدد صحابہ کرام کا عمل نقل کیا ہے۔ مثلاً سیدنا انس بن مالکؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ’’جب میت کی قبر برابر کردی جاتی تو وہ اس کے پاس کھڑے ہوکر یہ دعا کیا کرتے تھے۔’’اے اللہ! تیرا یہ بندہ واپس تیرے پاس پہنچ گیا ہے۔ تو اس کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرما۔ زمین کو اس کے پہلو سے ہٹادے۔ آسمان کے دروازے اس کی روح کے لیے کھول دے۔ اس کو قبول فرما۔ اے اللہ! اگر وہ نیکوکار ہو تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر گناہ گار ہو تو اس کے گناہو ں سے درگزر فرما‘‘۔ (المصنف لابن ابی شیبہ)
اسی طرح سیدنا ابن عباسؓ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن سائبؓ کی تدفین کے بعد ان کی قبر پر کھڑے ہوئے، ان کے لیے دعا کی، پھر واپس ہوئے۔ سیدنا احنفؓ ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ تدفین کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے دعا کی۔ سیدنا علیؓ نے یزید بن المکفف کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر قبر کے پاس گئے اور وہاں دعا کی۔ (حوالہ سابق)
ان احادیث اور آثار صحابہ کی بنا پر فقہا کرام اور اصحابِ فتاویٰ نے تدفین کے بعد میت کے لیے دعا و استغفار کا اثبات کیا ہے۔ اس سلسلے میں بعض علما کے بیانات اور چند فتاویٰ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
مولانا مجیب اللہ ندویؒ نے لکھا ہے:
’’دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے ہوکر میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا سنت ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ انتظار کریں اور جب قبر برابر ہوجائے تو سب ایک ساتھ مل کر دعا کریں، بلکہ ہر شخص کو الگ الگ دعائے مغفرت کرنی چاہیے۔ اگر ایک ساتھ دعا کریں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (اسلامی فقہ)
مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی (پاکستان ) فرماتے ہیں:
’’تدفین کے بعد میت کے لیے دعا کرنا ثابت شدہ امر ہے ، جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں‘‘۔ (ماہ نامہ محدث لاہور، جنوری 2001)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:
’’تدفین کے بعد قبر پر میت کے لیے دعا واستغفار مستحب ہے‘‘۔ (پھر سیدنا عثمانؓ سے مروی مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد مزید لکھا ہے) ’’چنانچہ فقہا نے بھی تدفین کے بعد دعا کو مستحب قرار دیا ہے۔ دعا میں چوں کہ ہاتھ اْٹھانے کی گنجائش ہے، اس لیے ہاتھ اْٹھا کر سکتا ہے، البتہ دعا کے وقت قبلہ کی طرف رْخ ہو، نہ کہ قبر کی طرف۔ قبر کی طرف ہاتھ اْٹھا کر دعا کرنے سے فقہا نے منع کیا ہے‘‘۔
(کتاب الفتاویٰ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
عالم عرب کے علما اور اصحابِ فتاویٰ نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے۔ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں:
’’تدفین کے بعد میت کے لیے دعا کی شریعت میں اجازت ہے۔ یہ دعا میت کا بیٹا بھی کرسکتا ہے اور دوسرے لوگ بھی‘‘۔
(islamQA.com، فتاویٰ نمبر 174715)
شیخ ابن بازؒ نے لکھا ہے:
’’رسولؐ کے عمل سے ثابت ہے کہ دفن کے بعد میت کے لیے دعا کی جائے۔ ہر اادمی الگ الگ دعا کرسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی دعا کرے اور بقیہ لوگ آمین کہیں‘‘۔ (فتاویٰ الشیخ ابن باز)
شیخ صالح بن فوزان الفوزان اور شیخ ابن عثیمینؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔اللجنۃ الدائمۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ نے بھی یہی رائے دی ہے۔
ان تمام فتاویٰ میں دلیل کے طور پر سیدنا عثمان بن عفانؓ سے مروی درج بالاحدیث نقل کی گئی ہے۔ جہاں تک میت کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے فوراً بعد دعا کرنے کا تعلق ہے، تو یہ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔