افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

207

تجدُّد اور تجدید کا فرق
عموماً لوگ تجدّد اور تجدید میں فرق نہیں کرتے اور سادہ لوحی سے ہر متجدد کو مجدد کہنے لگتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو نیا طریقہ نکالے اور اسے ذرا زور سے چلا دے وہ مجدد ہوتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ کسی مسلمان قوم کو برسر انحطاط دیکھ کر اسے دنیوی حیثیت سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے زمانے کی برسر عروج جاہلیّت سے مصالحت کرکے اِسلام اور جاہلیّت کا ایک نیا مخلوطہ تیار کر دیتے ہیں، یا فقط نام باقی رکھ کر اس قوم کو پورے جاہلیّت کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں، انھیں مجدد کے خطاب سے نواز دیا جاتا ہے حالانکہ وہ مجدد نہیں متجدد ہوتے ہیں اور ان کا کام تجدید نہیں تجدد ہوتا ہے۔ تجدید کا کام اس سے بالکل مختلف ہے۔ جاہلیت سے مصالحت کی صورتیں نکالنے کا نام تجدید نہیں ہے اور نہ اِسلام اور جاہلیّت کا کوئی نیا مرکب بنانا تجدید ہے، بلکہ دراصل تجدید کا کام یہ ہے کہ اِسلام کو جاہلیّت کے تمام اجزا سے چھانٹ کر الگ کیا جائے اور کسی نہ کسی حد تک اسے اپنی خالص صورت میں پھر سے فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ اس لحاظ سے مجدد جاہلیّت کے مقابلہ میں سخت غیر مصالحت پسند آدمی ہوتا ہے اور کسی خفیف سے خفیف جز میں بھی جاہلیت کی موجودگی کا روادار نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭
مُجدّد کی تعریف
مجدد نبی نہیں ہوتا مگر اپنے مزاج میں مزاجِ نبوت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ نہایت صاف دماغ، حقیقت رس نظر، ہر قسم کی کجی سے پاک، بالکل سیدھا ذہن، افراط و تفریط سے بچ کر توسط و اعتدال کی سیدھی راہ دیکھنے اور اپنا توازن قائم رکھنے کی خاص قابلیت، اپنے ماحول اور صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات سے آزاد ہو کر سوچنے کی قوت، زمانے کی بگڑی ہوئی رفتار سے لڑنے کی طاقت و جرأت، قیادت و راہ نْمائی کی پیدائشی صلاحیت، اجتہاد اور تعمیر نو کی غیر معمولی اہلیت اور ان سب باتوں کے ساتھ اِسلام میں مکمل شرح صدر، نقطہ نظر اور فہم و شعور میں پورا مسلمان ہونا، باریک سے باریک جزئیات تک میں اِسلام اور جاہلیّت میں تمیز کرنا اور مدتہائے دراز کی الجھنوں میں سے امرِ حق کو ڈھونڈ کر الگ نکال لینا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن کے بغیر کوئی شخص مجدد نہیں ہو سکتا اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر نبی میں ہوتی ہیں۔ (تجدید و احیائے دین)