فرقوں کی حیثیت

152

اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے جو قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اْمت کی شکل میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اسلام دشمنوں نے اسلام کو مٹانے‘ اس میں تحریف کرنے اور اسلام کے نام پر ایک اْمت کے مقابلے میں اْمتیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں‘ جیسے قادیانی وغیرہ لیکن ناکام ہوئے۔ اْمت مسلمہ کو دھوکا نہ دیا جاسکا اس لیے کہ قرآن و سنت میں مومن وکافر کے درمیان فرق پوری طرح واضح ہے۔ الحمد للہ! اس وقت اسلام پوری طرح محفوظ ہے اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عظیم الشان اْمت مسلمہ بھی اسی اسلام پر قائم ہے جو قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اْمت کی شکل میں ثابت ہے۔

دنیا کے مختلف مذاہب میں سے ہر مذہب بہت سے فرقوںمیں بٹا ہوا ہے۔ ان کے پاس ان کا اصل دین اور اصل کتابیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ براے نام اپنے مذہب سے وابستہ ہیں اور باہم متصادم ہیں۔ چند باطل عقائد اور بے جان مذہبی رسوم کے علاوہ ان کے پاس نظام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام عقیدے‘ عبادت‘ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ تمدن‘ اور نظام زندگی کی حیثیت سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں مختلف ناموں سے جو مسلک اور گروہ ہیں ان کا آپس میں اختلاف براے نام ہے اور چند عقائد و عبادات کی تعبیر اور طریقوں میں اختلاف تک محدود ہے۔ وہ بھی ایسا نہیں ہے کہ انھیں باہم متصادم کر دے۔ ان کے درمیان نظام زندگی کے سلسلے میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ حنفی‘ شافعی‘ مالکی اور حنبلی مسالک کا اختلاف علمی اور فروعی ہے۔ یہ چاروں اْمت مسلمہ کے مجتہدین اور رہنما ہیں اور تمام کے تمام سب مسالک والوں کے نزدیک محترم ہیں۔ ان کے اختلافات حق و باطل کے اختلافات نہیں ہیں بلکہ اولیٰ یا غیراولیٰ اور راجح اور مرجوح کے اختلافات ہیں۔ یہ اجتہاد اور فہم دین کا اختلاف ہے۔ خود نبیؐ کے زمانے میں یہ اختلافات رونما ہوئے اور آپؐ نے ان کو جائز قرار دیا۔
تفسیر‘ حدیث اور فقہ میں ان اختلافات کو علمی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ تمام فقہا کی آرا اور ان کے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے اور کسی کے خلاف طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے بڑے طبقے دو ہیں: 1۔ سنی‘ 2۔شیعہ۔

سنیوں میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث تین گروہ ہیں جو قرآن و سنت اور شریعت کے نفاذ پر متفق ہیں۔ ان میں نظام کی تفصیلات کے بارے میں بنیادی اور اصولی اختلاف نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک اس کی فقہی آرا دوسروں پر لازم نہیں ہیں۔ ریاست پاکستان کا ایک آئین ہے‘ جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ اس آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت‘ نبیؐ کی رسالت و نبوت‘ مسلم کی تعریف‘ مسئلہ ختم نبوت، اسلامی نظام کا نفاذ‘ شریعت کے معیار پر پورا اترنے والی اسلامی حکومت کا قیام شامل ہیں‘ اور ان مسائل میں شیعہ مکتب فکر اہل سنت والجماعتہ کے ساتھ متفق ہے۔ شیعہ حضرات کا اہل سنت والجماعت کے ساتھ بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود اسلامی نظام اور شریعت کے نفاذ پر اتفاق ہے۔ 31 علما کے 22 نکات‘ ملّی یک جہتی کونسل کا 17 نکاتی ضابطۂ اخلاق وغیرہ پر سب متفق ہیں۔ سابقہ دَور حکومت میں حکومت پاکستان کی قائم کردہ اتحاد بین المسلمین کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر سب کا اتفاق ہے۔ اختلاف کا تعلق صرف شخصی معاملات سے ہے‘ اجتماعی نظام پر سب متفق ہیں۔

آپ اپنے دوست کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ دنیا میں پھیلی ہوئی اْمت مسلمہ اور اس کے مختلف حصے چند مسائل میں اختلاف کے باوجود نظام زندگی کے معاملے میں پوری طرح متحد ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر موجود ہیں اور ان کی سفارشات متفقہ ہیں۔ اس لیے آپ چند مسائل میں عارضی اختلافات کو حقیقی اور بنیادی اختلافات نہ سمجھیں۔ اْمت مسلمہ کے مسالک میں اختلافات کی نوعیت معمولی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی فقہی آرا کو باطل قرار نہیں دیتا بلکہ اپنی فقہی آرا کو راجح اور دوسرے کی فقہی آرا کو مرجوع قرار دیتے ہیں۔ سب کی بنیاد قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اْمت ہے۔ اْمت مسلمہ اس وقت بھی اسی طرح واضح راستے پر ہے جس طرح اس وقت تھی‘ جب کہ نبیؐ اسے واضح راستے پر چھوڑ گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا، ترجمہ: ’’میں تمھیں واضح راستے پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اس کے دن کی طرح ہے‘‘۔ آج اگر کوئی باطل گروہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالنا چاہے تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا میں علما موجود ہیں جو قرآن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور حق و باطل میں پوری طرح تمیز کر سکتے ہیں۔