ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجٹ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کراچی کو سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں حکومت سندھ کی جانب سے ’کراچی سٹی کے لیے میگا اسکیموں‘ کی مد میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و بحالی کی کوئی نئی اسکیم نہیں ملی۔ بلکہ صوبائی حکومت نے مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں کراچی میں پہلے سے جاری 11 میگا اسکیموں کے لیے ایک ارب 39 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ یعنی کوئی نئی اسکیم نہیں ہے اور ایسا گزشتہ بجٹ میں بھی کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ مالی سال 25-2024 میں سب سے زیادہ ایک ارب روپے کورنگی کاز وے کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے ہیں، اس کے بعد ایم 9 سے تھدو نالہ براستہ مہران ڈرین کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کلفٹن میں نہر خیام کی بحالی، رزاق آباد سے شیدی گوٹھ پاور ہاؤس تک سڑک کی بحالی اور اسے چوڑا کرنے، سچل گوٹھ مین روڈ کی تعمیر، ناصر بروہی ہوٹل سے مبارک ولیج تک روڈ کی تعمیر اور منظور کالونی نالے کی مرمت کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر)، گریٹر کراچی سیوریج پلان (ایس 3)، گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم (ایس 3) (کے 4) جیسی طویل عرصے سے التوا کا شکار اسکیموں کے لیے رقوم مختص کرنے کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے تحت کوئی نئی ترقیاتی اسکیم نہیں ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو سندھ حکومت صوبے کے ٹیکس میں سے نوے فی صد سے زیادہ کراچی سے وصول کرتی ہے لیکن جب اس شہر پر خرچ کا وقت آتا ہے تو حکومت خاموش بیٹھ جاتی ہے یا مرکز سے پیسے مانگتی ہے، حالانکہ گزشتہ پندرہ سال میں کراچی کی جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اس کی روشنی میں کراچی سے حاصل شدہ ٹیکس کا ساٹھ فی صد سے زائد اس کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی پر خرچ ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہورہا ٹیکس کے علاوہ ایم کیو ایم کے تعاون سے کراچی کے درجن بھر اداروں کو سندھ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس طرح ان سب کا بجٹ بھی وہی کنٹرول کرتی ہے لیکن ان اداروں میں کراچی کے لوگوں کو ملازمت نہیں ملتی۔
دوسری طرف خرابی کا حال کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا ہوا نہیں، شہر کی سڑکیں بمباری سے تباہ شدہ کسی شہر کا منظر پیش کرتی ہیں، کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں گٹر نہ بہہ رہے ہوں، ٹیکس لینے کے لیے کے ایم سی، کے ڈی اے، کنٹونمنٹ، ڈی ایچ اے، ایکسائز، کے الیکٹرک واٹر بورڈ سب تیار ہیں، کوئی شہری بل نہ جمع کرائے تو سرچارج لگ کر آتا ہے۔ ساٹھ دن جمع نہ کرائے تو بجلی کا کنکشن کاٹا جاسکتا ہے بلکہ کے الیکٹرک تو پہلے ہی کاٹ دیتی ہے، پانی کا بل ادا نہ کیا جائے تو واٹر بورڈ ڈسکنکشن نوٹس دیتا ہے، گیس کا بل نہ دیں تو گیس کٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر واٹر بورڈ پانی، سوئی گیس والے گیس نہ دیں تو ان پر کیا جرمانہ ہوتا ہے؟ بجلی والے بجلی نہ دیں تو ان پر کوئی جرمانہ نہیں۔ کے ایم سی سڑکیں نہ بنائے تو کوئی جرمانہ نہیں تو پھر ٹیکس کس بات کا؟ پانی ٹینکر سے، بجلی جنریٹر سے، سیکورٹی پرائیویٹ گارڈز سے، صفائی چینی کمپنی یا افغان بچوں سے، سڑکیں اپنی مدد آپ کے تحت بنائی جائیں اور سرکار کی خدمت میں ٹیکس پیش کیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر ہیں، بے تحاشا بیماریاں ہیں، تعفن ہے، ان ڈھیروں کا مرکز مسجد، اسکول اسپتال یا پارک وغیرہ کے ساتھ دیواریں ہوتی ہیں۔ اور جو اسپتال صوبائی حکومت اور بلدیہ کے زیر انتظام اور زیر کنٹرول ہیں ان کا جو حال ہے وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں، عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر ہے تو دوائیں نہیں، کہیں جنریٹر نہیں، کہیں ضروری عملہ غائب اور اتائی تو کہیں بھی بیٹھ جاتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں تو نان میٹرک ایم ایس اور ڈائریکٹر میڈیکل سروسز بنا دیا جاتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں کی دوائیں مارکیٹیں میں فروخت ہونے کی خبریں تو عام ہیں۔ لیکن اسپتالوں میں ملازمتیں، ترقی اور پوسٹنگ وغیرہ سب کچھ تباہ ہے۔ جسارت ہی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج جسے درجہ بڑھ کر یونیورسٹی بنادیا گیا ہے میں‘ میڈیکل یونیورسٹی میں آئوٹ نہیں کرلیا جارہا۔ یہی حال عباسی شہید اسپتال کا بھی کردیا گیا ہے۔ البتہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے معاملے میں صوبائی حکومت خاصی مستعد ہے کیونکہ مراکز میں کچھ قوتیں اس ادارے کو واپس لینے کی خواہش رکھتی ہیں۔
یہی حال تعلیم کا بھی کہا گیا ہے۔ شعبہ تعلیم بھی صوبائی معاملہ قرار پاچکا ہے اور یہاں صوبائی حکومت کے زیر انتظام تعلیمی اداروں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ملازمت، تقرر ترقی تنزلی سب کچھ سیاسی بنیادوں پر ہورہا ہے۔ پارٹی کے اہم عہدیدار تمام کام کی نگرانی کرتے ہیں۔ میٹرک کے امتحانات میں جو دھاندلی کی گئی نتائج خراب کیے گئے ہیں۔ اس پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور نتائج بھی متنازع ہوجاتے ہیں۔ باقاعدہ امتحان پاس کرکے پرائمری اور سیکنڈری اسکول ٹیچرز کو ملازمت نہیں مل رہی اور سندھ کے اسکولوں کا تو رونا کیا کراچی جیسے شہر کے اسکولوں میں بھی جانور بندھے نظر آتے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ کراچی کو رہنے کے قابل بنایا جائے گا۔ اگر وزیر اعلیٰ کراچی کو رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں اور شہر کے درجے پر واپس لانا چاہتے ہیں تو ایک کام کریں۔ وزیراعلیٰ خود اورنگی میں رہیں، صوبائی وزیر بلدیات لانڈھی یا نیو کراچی میں رہیں، تمام وزرا اور سرکاری ارکان اسمبلی بھی لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، کورنگی شاہ فیصل کالونی میں رہیں۔ سرکاری بسوں میں سفر کریں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو پڑھوائیں اور سرکاکاری اسپتالوں میں اپنا اور گھر والوں کا علاج کروائیں۔ کراچی شہر بھی بنے گا اور رہنے کے قابل بھی ہوجائے گا۔
کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا اس کا جواب تلاش کرنا ہو تو کسی بھی علاقے میں کسی پارک میں چلے جائیں، باہر کچرا اور ٹھیلے والے، اندھیرا، اور اندر بھرپور تجارتی سرگرمیاں، ہر چیز کے پیسے، جھولے وغیرہ سب کے پیسے ہوتے ہیں۔ ہر چیز ٹھیکے پر چل رہی ہے، کسی سڑک پر پیدل چلنا چاہیں تو سڑک کم اور گڑھے زیادہ ملیں گے، گڑھوں سے بچ گئے تو آوارہ کتوں کی بہتات، کمال یہ ہے کہ اسٹریٹ لائٹس پورے شہر میں لگی ہوئی ہیں لیکن روشن صرف ضرورت کے مطابق کی جاتی ہیں، کسی سرکاری شخصیت کے دورے، سیاسی رہنما کے جلسے وغیرہ کے موقع پر لائٹ روشن ہوجاتی ہے۔ اور اس کیفیت میں اگر سڑک پر حکومت کے پالے ہوئے آوارہ کتے، جی پالے ہوئے اس لیے کہ نام نہاد سول سوسائٹی کی فرمائش پر کتے نہیں مارے جاتے آدمی کتے کے کاٹنے سے مرجائے تو خیر ہے، ان کتوں کو نہ مارنے کے لیے جو منصوبہ بنایا گیا تھا وہ تو کبھی روبہ عمل نہیں آیا اور کتوں کو مارنے کی دوا اور وہ مٹھائی جس میں رکھ کر دوا دی جاتی تھی وہ پتا نہیں کون کھا جاتا ہے، کم از کم کتے تو نہیں ورنہ مرجاتے، اس سے بڑی کوئی مخلوق ہے جو یہ سب کھا جاتی ہے۔ اور حکومت کے ان انتظامات کی وجہ سے کوئی کتا کسی کو کاٹ لے تو سرکاری اسپتالوں میں ویکسین ندارد، یہ ویکسین کہاں جاتی ہے، یہ بھی سرکاری ٹیکا ہے۔ تازہ واقعہ کراچی کے پوش کہلائے جانے والے علاقے پی ای سی ایچ ایس میں ایک سینئر ڈاکٹر صنور علی پر بیک وقت تین آوارہ کتوں نے حملہ کر دیا، ان سے بچنے کی کوشش میں وہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر گرگئے، جس سے ان کے دونوں بازو ٹوٹ گئے، یہ ایک واقعہ نہیں ہے کراچی کے بیش تر علاقے اس مسئلے کا شکار ہیں، اس میں کچی آبادی اور پوش علاقے کی کوئی تخصیص نہیں۔ (جاری ہے)