پاکستان کے جعلی جرنیل اور جعلی سیاست دان

477

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ چنانچہ اس کی ہر چیز کو حقیقی اور عظیم ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو جو جرنیل اور جو سیاست دان فراہم ہوئے ان کا کوئی بڑا آدرش یا کوئی بڑا ’’ideal‘‘ ہی نہیں تھا۔ ان کے آدرش جعلی تھے۔ چنانچہ پاکستان کو جرنیل اور سیاست دان بھی جعلی فراہم ہوئے۔

دنیا کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نظریہ انسانوں اور قوموں کو بڑا بناتا ہے۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت خود قائد اعظم ہیں۔ وہ جب تک کانگریس کے ساتھ تھے صرف ایک ’’فرد‘‘ تھے مگر دو قومی نظریے نے انہیں ایک رکنی فوج یا One Man Army بنادیا۔ دو قومی نظریے کی سیاست سے پہلے قائداعظم صرف افراد کے وکیل تھے مگر دو قومی نظریے نے انہیں ایک قوم، ایک ملت، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک مذہب کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔ قائداعظم ایک فرد تھے مگر وہ وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے انگریزوں اور ہندو اکثریت کے ہاتھوں سے پاکستان چھین کر دکھا دیا۔ سوشلزم ایک انسانی ساختہ یا Man Made نظریہ تھا لیکن اس نظریے کی بنیاد پر لینن نے روس میں عظیم انقلاب برپا کرکے دکھا دیا۔ اس انقلاب میں 80 لاکھ لوگ مارے گئے مگر سوشلزم کی کشش نے ایک نئی دنیا تخلیق کرکے دکھا دی۔ چین میں کمیونزم کے نظریے کا پرچم اٹھا کر مائو نے انقلاب برپا کردیا۔ یہ انقلاب تین کروڑ لوگوں کو کھا گیا۔ مگر مائو کے نظریے نے چین کو ایک عظیم قوم بنا کر دکھا دیا۔ ورنہ انقلاب سے پہلے پوری چینی قوم افیون کاشت کرتی تھی اور افیون پیتی تھی اور اس کا کوئی حال تھا نہ مستقبل۔ پاکستان کے جرنیلوں اور پاکستان کے سیاست دانوں کے پاس اسلام تھا دنیا کا سب سے بڑا آدرش۔ اسلام نے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ جیسی عظیم شخصیت پیدا کی تھیں۔ اسلام کی قوت نے پاکستان کو عدم سے وجود میں لا کر دکھایا تھا۔ اسلام کی طاقت پاکستان کو وقت کی سپر پاور بنا کر کھڑا کرسکتی تھی مگر پاکستان کے جعلی جرنیلوں اور جعلی سیاست دانوں نے اسلام کو پوری قوم کا آدرش یا ’’آئیڈیل‘‘ بنانے سے انکار کردیا۔

جنرل ایوب خان قوم کے پہلے فوجی آمر تھے مگر ان کی رال سیکولر ازم پر ٹپکتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دے دیا انہوں نے ایسے عائلی قوانین وضع کیے جو اسلام کی ضد تھے۔ مگر بدقسمتی سے جنرل ایوب کا سیکولر ازم بھی اصلی نہیں تھا وہ بھی جعلی تھا۔ اس کا ایک ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ جب 1965ء میں بزدل بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو جنرل ایوب نے قوم سے خطاب کیا اپنے خطاب میں جنرل ایوب نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیو اُٹھو اور لاالہ الااللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتادو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ارے بھائی ایک سیکولر آدمی کو جنگ کے وقت اچانک کلمہ طیبہ اور اس کا ورد کہاں سے یاد آگیا۔ جنرل ایوب کو تو کہنا چاہیے تھا کہ پاکستانیو اُٹھو اور سیکولر ازم زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے دشمن کو بتادو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ جنرل یحییٰ خان جنرل ایوب سے بھی گئے گزرے تھے۔ انہیں شراب اور شباب ہی سے فرصت نہیں تھی۔ 1971ء کے بحران میں جنرل رحیم جنرل یحییٰ سے ملنے گئے تو جنرل یحییٰ ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے تھے۔ جنرل رحیم نے بات کرنی چاہی تو جنرل یحییٰ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ ذرا ٹھیرو ٹی وی پر نور جہاں کا گانا آنے والا ہے۔ جنرل ضیا الحق بلاشبہ اسلام پسند تھے مگر ان کا اسلام حقیقی اسلام نہیں تھا۔ ان کا اسلام صرف ’’سیاسی اسلام‘‘ تھا۔ یعنی ایسا اسلام جس سے جنرل ضیا الحق سیاسی فوائد سمیٹنا چاہتے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے ایسی غیر سودی بینکاری متعارف کرائی جو صرف نام کی اسلامی تھی۔ انہوں دفاتر میں نظام صلوٰۃ اس طرح متعارف کرایا کہ وہ مذاق بن گیا۔ انہوں نے ایک ایسے جرم میں بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا جو جرم بھٹو نے کیا ہی نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا۔ اس اصطلاح کے کوئی معنی ہی نہیں تھے۔ اس لیے کہ اسلام سوشلزم کی ضد تھا اور سوشلزم جہاں گیا اس نے اسلام کا صفایا کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بھٹو کا سوشلزم بھی جعلی تھا۔ وہ صرف ایک وڈیرے، صرف ایک جاگیردار تھے، اگر بھٹو سچے سوشلسٹ ہوتے تو وہ کبھی ملک کو اسلامی آئین نہیں دے سکتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف جب تک برسراقتدار رہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ مگر جنرل پرویز کا لبرل ازم بھی جعلی تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ملک کو حقیقی جمہوریت فراہم کرتے۔ فکر و خیال کی آزادی عطا کرتے۔ بے نظیر بھٹو صبح شام جمہوریت کا راگ الاپتی تھیں مگر خود انہوں نے کبھی پیپلز پارٹی میں جمہوریت کو داخل نہ ہونے دیا۔ ان کا اسلام بھی جعلی تھا اور صرف چادر تک محدود تھا۔ میاں نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے کاندھے پر چڑھ کر پنجاب کے وزیراعلیٰ اور بالآخر ملک کے وزیر اعظم بنے مگر وہ اندر سے صرف ایک ’’پنجابی شاونسٹ‘‘ تھے۔ چنانچہ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کے دور میں پنجاب کے اندر جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ کا ناپاک نعرہ لگایا۔ یہ مرض ان کی بیٹی میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ وہ خود کو اسلام اور پاکستان کی بیٹی نہیں کہتیں۔ وہ خود کو بار بار پنجاب کی بیٹی کہتی ہیں۔ عمران خان جب سے سیاست میں آئے ہیں ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مگر انہیں ریاست مدینہ کی الف ب بھی معلوم نہیں۔

پاکستان کے جعلی جرنیلوں کے جعلی پن اور ان کے ناقابل اعتبار ہونے کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وہ برسوں سے اپنوں اور پرایوں کو دھوکے پر دھوکے دیے جارہے ہیں۔ یہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے 1971ء کے بحران میں مشرقی پاکستان کے اندر البدر اور الشمس بنائیں۔ لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کے ساتھ غداری کی۔ پاکستان کی فوج خود کو بھارت کے آگے ہتھیار ڈال کر ’’محفوظ‘‘ ہوگئی مگر اس فوج نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ چنانچہ مکتی باہنی کے غنڈوں نے چن چن کر البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو شہید کیا۔ 1971ء کے بحران میں مشرقی پاکستان میں موجود بہاریوں نے کھل کر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا مگر پاکستانی جرنیلوں نے بہاریوں کو بھی تنہا چھوڑ دیا۔ چنانچہ آج تک لاکھوں بہاری بنگلا دیش میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا تو یہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے کہا کہ طالبان افغانی نہیں پاکستانی ہیں۔ چنانچہ آپ ان کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایسا ہی کیا۔ لیکن نائن الیون کے بعد پاکستانی جرنیلوں نے سیکڑوں طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور جنرل پرویز مشرف کے اپنے اعتراف کے مطابق لاکھوں ڈالر کمائے۔ یہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کے احاطے میں ہونے والی ایک ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین سے کہا تھا کہ اگر آپ اپنی تحریک کو تحرک کی بلند سطح پر لے آئیں تو پاکستان آپ کی عملاً مدد کرے گا اور وہ مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرے گا۔ مگر جب مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا اور پاکستان سے مداخلت کا مطالبہ کیا تو جرنیلوں نے کہہ دیا کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ یہ پاکستانی جرنیل ہی تھے جنہوں نے بھارتی پنجاب میں سکھوں کی تحریک کو منظم کیا مگر جب یہ تحریک قوی ہوگئی تو پاکستان نے علٰیحدگی پسند سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردیں اور اس کا الزام چودھری اعتزاز احسن پر لگادیا جو بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے۔ لیکن چودھری اعتزاز احسن نے ایک انٹرویو میں صاف کہا کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا میں ایسا کرکے پاکستان میں زندہ رہ سکتا تھا؟

پاکستان کی کہانی ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر قدیر نے ایٹم بن بنا کر پاکستان بچایا مگر پاکستانی جرنیلوں نے پاکستان پر اتنا بڑا احسان کرنے والے ڈاکٹر قدیر کی تذلیل کی انتہا کردی۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب پر الزام لگایا کہ انہوں نے پاکستان کی جوہری صلاحیت کا ایک حصہ ایران کو فروخت کرکے اس سے مال کمایا ہے۔