2 ارب مسلمانوں کی مملکتوں کے حکمرانوں کی بدولت امت مسلمہ پہ آکے عجب وقت پڑا ہے کہ وہ مٹھی بھر یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے سامنے بے دست و پا بنے ہوئے کاغذات اور بیانات کی گولہ باری سے زیادہ کچھ کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کرپارہے ہیں۔ یہودی مٹھی بھر ہیں مگر وہ بند مٹھی کی طرح جبڑہ توڑ معرکہ حق و باطل میں صف بستہ ہیں۔ رہے مقابل مسلمان اور امت مسلمہ کے مسلکی گروہ یہ خربوزے کی پھانک کی طرح پھٹے ہوئے ہیں اور اس کا نتیجہ یہی نکل رہا ہے جو بڑے بوڑھے بتاتے آئے ہیں کہ خربوزہ پر چھری گرے یا چھری خربوزے پر نقصان خربوزے ہی کا ہوتا ہے۔ لسانی اور مسلکی چھری نے امت مسلمہ کی قوت کو منتشر کردیا۔ چندے کے دھندے نے اس آگ کو خوب بھڑکایا کہ مسلم جسد واحد کا تصور خاکسر کر ڈالا۔ اغیار ان جذبات جو مدنیت کی جڑ ہیں عقیدت جو حقیقت سے دور کرنے کا ہتھکنڈا ہے پر خوب سرمایہ کاری کی اور یوں مذہب کے لیے سب سے اہم راہ اعتدال کی ہے وہ ہاتھ سے جاتی رہی اب مسلکی درس گاہیں ہیں دینی ڈھونڈے سے نہیں ملتیں، مساجد کی تقسیم فرقہ وارانہ ہے اور یوں ہی پرچار نفرت کا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اور نہیں بلکہ مسلم ملکی حکمرانوں نے بھی پاکستان کو جو ایٹمی قوت جو بفضل تعالیٰ بنا کو کمزور کرنے کے لیے اور اس میں اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مدارس میں سرمایہ کاری کی اور مسلکی جتھوں نے مساجد پر قبضہ کرکے اپنے تئیں جہاد کیا۔ حلیہ بدل کر بہروپ کو مطمح اسلام گردانا، دنیا کے مسلمان مگر مسلکی حکمرانوں کے اپنے مسلک سے دوسرے مسلک کو نیچا دکھانے کے لیے مسلح جارحیت کی اور ہزاروں مسلمان اس مسلکی، فرقہ واریت کے مرگھٹ پر تہ تیغ ہوگئے یا کر ڈالے گئے۔ اور یوں مسلمان پھٹے دودھ کی طرح کسی کام کے نہ رہے۔
مسلمان ملک فرقے کی کسوٹی پر پرکھے جانے لگے، پھر فیصلے کیے جانے لگے کہ یہاں تک محسوس ہونے لگا اچھا ہوا جو اس کے ساتھ ہوا یہ ہورہا ہے یوں مٹھی بھر اسرائیل نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ کفر جسد واحد ہے اور جانتے بوجھتے ظالم اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے اے پی سی میں جو بات کی وہ لاجواب کی کہ مسلمانوں کی کمزوری کی بنیادی وجہ مسلکوں، لسانی، علاقائی تقسیم ہے۔ جسد واحد ہوجائو تو پھر دندان شکن ہوجائو گے۔ ہاں جب تذکرہ اے پی سی کا آہی گیا تو متحد کے بجائے انہوں نے یعنی صدر زرداری نے فلسطین کے بٹوارہ کی بات کر ڈالی کہ اب ہوگا یوں ہی گزارہ آدھا تمہارا آدھا ہمارا، یعنی جس طرح پاکستان میں بٹوارے کی حکومت ن اور پی پی کی ہے یوں ہی پی ڈی ایم کی طرز پر فلسطین کا حل نکال لیں۔ تو وزیراعظم شہباز شریف نے اسلامی فوج کے کندھوں پر یہ بوجھ لادنے کی بات رکھ دی۔
اغیار نے مسلمانوں میں مسلکی پھوٹ کو پروان چڑھایا اور خاصی کامیابی کے بعد اب ایک قدم اور آگے بڑھا کر اتحاد بین المذاہب کے پرچار کی سرپرستی شروع کردی کہ وہی بات جو جھوٹے نبی مسلمہ کذاب نے کہی کہ ہم ایک دوسرے کو قبول کرلیں مگر آپؐ نے اس کو ٹھکرادیا۔ اب مسلکی، فرقہ پرستی ایک کاروبار بن چکی ہے جو نفرتوں سے دھمکایا اور عقیدتوں سے مہکایا جاتا ہے اور اس کی بدولت امت مسلمہ کی ہوا اُکھڑ گئی ہے اب جذبات کو بھڑکا کر قوت مٹانے کا عمل ہے اور معاملات کو شریعت کے بجائے مسلک کے ڈھب پر لانے کی سعی ہے اور یوں مخالف مسلک کو زیر کرنے کے لیے کفر سے معاملات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ سو خواری مقدر ہے اغیار نے مال کے فتنہ کو غداروں کی کھیپ تیار کرنے میں خوب استعمال کیا ہے۔ ربّ العزت نے فرمایا: یعنی تمہارے درمیان اُن کے سننے والے (جاسوس) موجود ہیں اپنوں کے علاوہ کسی کو اپنا راز دان مت بنائو یہ کون ہیں؟ قرآن کی زبانی پڑھیے! ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت کے بدلے میں خرید لیا ہے لہٰذا نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی‘‘۔ (البقرہ) دنیا کے دلدادہ نفرتوں کو پروان چڑھانے والے مسلکی، فرقہ پرست علما کہلانے والوں سوچ لو! تم ہی امت مسلمہ کی تباہی و بربادی کے ذمے دار ہو ورنہ یہود، ہنود کی کیا طاقت کہ وہ تمہاری طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ سکے، یقین رکھو تمہارا پروردگار سب کو نظر میں رکھے ہوئے ہے۔ (الفجر)