رواں سال 2024 میں ہونے والی آسیان سمٹ اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کانفرنس، دونوں بین الاقوامی سیاست اور خطے کی معیشت پر گہرے اثرات ڈالنے والے اہم ایونٹس ہیں۔ ان دونوں کانفرنسوں میں عالمی طاقتوں جیسے چین، روس، اور امریکا کے مفادات نمایاں نظر آتے ہیں، جو کہ ایشیا پیسفک اور جنوبی ایشیا میں مستقبل کی جغرافیائی سیاست کی سمت کو متعین کریں گے۔
آسیان سمٹ میں جاپان کے وزیراعظم شیگیرو ایشیبا کی شرکت جاپان کی خطے میں اثر رسوخ کو مستحکم کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ جاپان، جو امریکا کا قریبی اتحادی ہے، جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور فوجی اثرات کا متوازن مقابلہ کرنے کے لیے آسیان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ساؤتھ چائنا سی چین کے لیے اہم جغرافیائی علاقہ ہے، جو سالانہ عالمی تجارت کے ایک بڑے حصے کی گزرگاہ ہے۔ چین اس علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے، جن میں فوجی اثر رسوخ اور سمندری تنازعات شامل ہیں۔ جاپان اور امریکا اس بات کے خواہاں ہیں کہ اس خطے میں چین کا اثر کم ہو اور ان کے تئیں آزاد نیویگیشن کو برقرار رکھا جائے۔
آسیان سمٹ میں جاپان کی توجہ ماحولیاتی تبدیلی، اقتصادی ترقی، اور علاقائی سیکورٹی جیسے موضوعات پر ہے۔ تاہم، کچھ ناقدین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ جاپان آسیان ممالک کو ایسی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو دراصل فوسل فیولز پر انحصار کو طول دے رہی ہیں، جیسے کاربن کیپچر اور اسٹوریج ٹیکنالوجی۔ یہ پالیسی، جو بظاہر ماحولیاتی بہتری سے متعلق ہے، درحقیقت جاپان کی صنعتی پالیسیوں کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی ایس سی او کانفرنس میں چین اور روس کے مفادات خاص طور پر اہم ہیں۔ یہ دونوں ممالک ایس سی او کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھتے ہیں جو کہ مغربی اتحادی تنظیموں کے متبادل کے طور پر کام کرتا ہے۔ روس ایس سی او کے ذریعے اپنے جنوبی سرحدوں کے تحفظ اور خطے میں مغربی مداخلت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ چین وسطی ایشیا میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے ذریعے اپنا معاشی اثر رسوخ بڑھا رہا ہے، جس کے ذریعے، چین اور روس نہ صرف اقتصادی تعاون بلکہ سیکورٹی کے شعبے میں بھی ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان، جو چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، چین- پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری حاصل کر رہا ہے۔ ایس سی او کانفرنس پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خطے میں اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو خصوصاً چین اور روس کے ساتھ مضبوط کرے۔
چین اور امریکا کے جنوبی ایشیا اور آسیان میں مفادات کے علاوہ جنوبی ایشیا میں بھی مفادات ہیں جو اس معاملے کا ایک اہم پہلو ہے، اور یہی مفادات ان دونوں کانفرنسوں سے براہ راست منسلک ہیں۔ چین، جو پاکستان کا قریبی اتحادی ہے، سی پیک کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے، جبکہ امریکا بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کر رہا ہے تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو متوازن کیا جا سکے۔ ایس سی او اور آسیان دونوں فورم ان طاقتوں کو اپنے مفادات کو بڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
ساؤتھ چائنا سی کے تنازع میں چین کا اقتصادی اور فوجی اثر رسوخ، امریکا کی جانب سے اس خطے میں فوجی مشقوں اور تجارتی راستوں کی حفاظت کی کوششوں کے ساتھ متصادم ہے۔ ان کانفرنسوں میں، امریکا کی غیر موجودگی کے باوجود، اس کے مفادات جاپان اور بھارت جیسے اتحادیوں کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ خطے میں چین کا اثر کم ہو اور اس کے تئیں آزاد نیویگیشن کی حمایت جاری رہے۔
ان دونوں ایونٹس کے خطے اور عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آسیان سمٹ میں جاپان کی شرکت اور ایس سی او کانفرنس میں چین اور روس کی قیادت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے معاشی اور سیکورٹی مفادات کو فروغ دینے کے لیے خطے میں سرگرم ہیں۔ چین اور روس کی شراکت ایس سی او کے ذریعے خطے میں ان کا اثر رسوخ بڑھا رہی ہے، جبکہ امریکا اور جاپان آسیان کے ذریعے چین کے اثر کو متوازن کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
اقتصادی ترقی، ماحولیاتی مسائل، اور سیکورٹی چیلنجز ان دونوں ایونٹس کے کلیدی موضوعات ہیں، جن کے نتائج خطے کی مستقبل کی سمت کو متعین کریں گے۔ ان کانفرنسوں کے بعد عالمی سیاست میں طاقت کے توازن کی نئی حکمت عملی سامنے آ سکتی ہے، جہاں آسیان اور ایس سی او کے ذریعے بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
آسیان سمٹ اور ایس سی او کانفرنس کے ذریعے جاپان، چین، روس، اور امریکا خطے میں اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جاپان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو متوازن کرے، جبکہ چین اور روس ایس سی او کے ذریعے اپنے اقتصادی اور سیکورٹی مفادات کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ان ایونٹس کے نتائج خطے کی سیاست اور معیشت پر طویل المدتی اثرات ڈال سکتے ہیں، جو کہ ایشیا پیسفک اور یوریشیا کی جغرافیائی سیاست کو ایک نئی شکل دیں گے۔