گزستہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے ڈھونگ بھارتی انتخابات میں بھی مودی کی پارٹی کی شکست پر مختلف تبصرے ہورہے ہیں ایک یہ ہے کہ کشمیریوں نے مودی کی پارٹی کو عبرتناک شکست دیدی اور کہاجارہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کا غرور خاک میں ملادیا گیا ، تاہم اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ انتخابات تھے کیا۔بھارتی حکمران مقبوضہ کشمیر پر اپناتسلط مستحکم کرنے کے لیے جھرلو انتخابات کراتے رہتے تھے لیکن ان انتخابات میں کشمیریوں کو بڑے پیمانے پر عوام سے رابطوں کا موقع ملتا تھا جس سے تحریک حریت کو قوت ملتی تھی ، اس کے بعد انہوں نے ٹکڑوں میں انتخابات کرانے شروع کیے اور حریت کانفرنس نے باقاعدہ اعلان کرکے بائیکاٹ کیا اور ثابت کیا کہ انتخابات جعلی ہوتے ہیں پولنگ اسٹیشن ویران ہوتے ہیں اور نتائج پھر بھی سامنے آتے تھے کہ مرکز کی حمایت یافتہ کوئی پارٹی کامیاب قرار پاتی اور حکومت بناتی تھی ، کافی عرصے سے بھارتی حکومت آبادی کاتناسب بھی بدلنے کی کوشش کر رہی تھی اس نے پنڈتوں اور دوسرے ہندوؤں کو کشمیر کی سرکاری شہریت بھی دے رکھی تھی ، اس مرتبہ شاید اس کا ٹیسٹ کرنے کا پروگرام تھا کہ کتنے لوگ آچکے ہیں۔ کشمیریوں نے حسب معمول بائیکاٹ کیا تھا لیکن جتنے بھی لوگوں کو وہاں لایا گیا اور جعلی ووٹ ڈلوانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا اور الیکشن کرادیے گئے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہیں استصواب کے موقع پر یہ لوگ ووٹر کے طور پر پیش نہ کردیے جائیں ۔ اس مرتبہ اس جعلی الیکشن میں بھی بی جے پی کو شکست ہوگئی اور کانگریس کا اتحاد جیت گیا، اسے بہت سے لوگ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی شکست قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کشمیر یا بھارت کا کوئی علاقہ ہو وہاں مسلمانوں کے خلاف بیشتر بڑے اقدامات اور واقعات کانگریس کے دور میں ہوئے ہیں، صرف 5 اگست 2019 کا اقدام بی جے پی کا تھا ، لہذا بی جے پی کی شکست یا کانگریس کی فتح سے کشمیریوں کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور پاکستانی حکومت بھی ایسی کوئی کوشش نہ کرے جس سے اصل کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جبری انتخابات میں مودی سرکار نے ہر قسم کے ہتھکنڈے اور سرکاری مشینری کا استعمال کیا لیکن وہ اس کے باوجود شکست سے دوچار ہوگئی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ووٹرز کی اکثریت نے الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملیں جسے بھارت میں ووٹرز کا مودی سرکار کے خلاف ’’ بیلیٹ احتجاج‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس اپوزیشن جماعت کانگریس کا انتخابی اتحاد 90 میں سے 51 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس انتخابی اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 2 نشستیں حاصل کرپائی جو حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہوجائے گی۔یاد رہے کہ مودی سرکار نے کالے قانون کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے لداخ سے جدا کیا اور پھر انہیں اکائیوں کی صورت دے کر وفاق میں ضم کرلیا تھا۔بہر حال بی جے پی کی شکست پر خوش ہوکر بیٹھ رہنے کے بجائے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرانے کی جدوجہد بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اپنے ایجنڈے سے فارغ ہو جائے تو کوئی قومی ایجنڈا بھی روبہ عمل لانے کی کوشش کرے۔