حافظ نعیم کی تشویش بجا ہے‘ فوج کو جب بھی عوام کے سامنے لایاگیا حالات مزید خراب ہوئے

140

کراچی (رپورٹ : محمد انور ) جماعت اسلامی کے رہنما معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ آج دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے ایسی صورتحال میں ملک کے سیاستدانوں اور اداروں کو بھی اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر سیاست دان بھی ایسی حرکتیں کریں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر ملک کی معیشت مضبوط کرنے کے امکانات جو بنتے ہوں ختم ہوجائے۔ وہ نمائندہ جسارت کے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ کیا حافظ نعیم الرحمن کی یہ تشویش بجا ہے کہ ملک کے حالات خراب ہونے کے باوجود فوج کو عوام کے سامنے کھڑا کردیا گیا ہیں۔ اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین احمد صدیقی اور جامعہ کراچی کے شعبہ سیاست کے پروفیسر محبوب حسن مقدم نے بھی ملے جھولے تاثرات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ اگر اس صورتحال کے باوجود اگر اسی طرح کے اقدامات کیے جاتے رہے تو ملک کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو توانا کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا چونکہ ساری دنیا میں اتھل پتھل مچی ہوئی ہے ،اس سے محفوظ رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا سب سے بڑا دوست ہماری سرحد پر ہے اور دشمن بھی سرحد کے قریب ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ حکومت میں 2 سے زاید سیاسی جماعتیں شامل ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کرتی ہیں اور انہیں عوام کا مینڈیٹ حاصل ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ اس حکومت کی بات کو انتظامیہ اور پولیس نے ماننے سے انکار کیا نتیجے میں حکومت کو فوج کو بلانا پڑا کیونکہ حکومت کے آرڈر کو انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت عوام کی نمائندگی نہیں رکھتی جس کی وجہ سے فوج کو بلایا گیا یہ عمل کسی طور پر بھی جمہوری نہیں کہلا سکتا اور اس عمل کو کسی طور پر بھی جمہوری اور آئینی عمل نہیں کہا جا سکتا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے میرا خیال ہے کہ حکومت کو اور ذمے داروں کو حزب اختلاف سے بات کرنی چاہیے اس کے سوا کوئی اور حل مجھے نظر نہیں آتا۔ جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ ملک کے حالات ویسے بھی تشویشناک ہے اور اس تناظر میں عوام کے سامنے فوج کو لا کھڑا کرنا کسی بھی طور مناسب اقدام نہیں ہے اسی وجہ سے حافظ نعیم الرحمن کی یہ تشویش بجا ہے۔ جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کے پروفیسر محبوب حسن مقدم نے کہا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کی تشویش یقینا بجاہے کیونکہ فوج کو جب بھی عوام کے سامنے لا کھڑا کیا گیا تو حالات مزید خراب ہوئے ،ماضی میں اس کی مثالیں واضح ہوچکی ہیں۔ ماضی میں ایسے ہی اقدام کے نتیجے میں ملک ٹوٹ چکا ہے۔ماضی کے تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں موجودہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں تھے کہ فوج اور سیاسی لوگوں میں موجود اختلافاتی معاملات ختم ہو کر وہ ایک دوسرے قریب آجاتے لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ حکمرانوں نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے عوام اور اداروں میں اختلافات پیدا ہوں اور وہ اداروں سے متنفر ہوں یا ان سے دوریاں پیدا ہو جائیں۔