حکومت من مانے فیصلے لینے کیلئے جلد بازی میں آئینی عدالت کاقیام چاہتی ہے

127

کر اچی (رپورٹ: قاضی جاوید)حکومت من مانے فیصلے لینے کے لیے جلدبازی میں آئینی عدالت کا قیام چاہتی ہے‘ ترمیم کو سب کے سامنے لایا جائے‘حکمراں جماعت کے اراکین کوبھی نہیں پتاتھا کیا ہو رہا ہے‘ حکومت کا رویہ جمہوری اقدا ر کے برخلاف ہے‘ پیپلزپارٹی،ن لیگ کثرت رائے سے اور مولانا فضل الرحمان متفقہ طور پر آئینی ترمیم کی منظوری چاہتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر،قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اورپیپلز پارٹی کے رہنماخورشید شاہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا آئینی عدالت کا قیام من مانے فیصلے لینے کے لیے ہوگا؟‘‘ بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی آئینی ترمیم ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی پارٹی کے تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے لیکن حکمران جماعت کے ارکان کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے‘ اس طرح کی تمام ترامیم من مانے فیصلے لینے کے لیے ہی کی جاتی ہیں‘ پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا یہ مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ کسی آئینی ترمیم پر غور کرے‘ اس کے باوجود کمیٹی کے سامنے آئینی ترمیم کا مسودہ پیش نہیں کیا گیا‘ پی ٹی آئی کا یہی مطالبہ ہے کہ ترمیم کو سب کے سانے لایا جائے‘ مجوزہ آئینی عدالت کے قیام کا مقصد صرف اور صرف من مانے فیصلے لینا ہے‘ حکومت جلد بازی میں آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے جو کہ درست اقدام نہیں ہے‘ ہمارے لوگوں کو لاپتا کیا گیا ہے ہم بار بار حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں۔ عمر ایوب کا کہنا ہے کہ مجوزہ آئینی عدالت کے قیام کا مقصد من مانے فیصلے لینا ہے‘ اگر حکومت کا یہی رویہ رہا تو یہ بل متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہو گا‘ وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی پیکج، جسے عدالتی اصلاحات پیکج کا نام دیا جا رہا ہے، اس کی تفصیلات منظر عام پر آ چکی ہیں‘ اس پیکج میں آئینی عدالت کے قیام، اس کے دائرہ اختیار کے تعین، آرمی ایکٹ میں ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کرنے، ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں۔ خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی آئینی ترمیم ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ اس سے من مانے فیصلے لینے کی کوشش کی جائے‘ مجوزہ ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں‘ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عملدرآمد مکمل ہو اسی لیے اس آئینی ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں‘ پی پی پی اور ن لیگ یہ چاہتی ہیں کہ کثرت رائے سے یہ ترمیم منظور کرائی جائے لیکن مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ یہ ترمیم متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور ہو‘ اگر اتفاق کے رائے ہو جاتا ہے تو مزید انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔