حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) سندھی تحریک کی مرکزی صدر عمرا، مرکزی رہنما ماروی سندھو حسنہ راہجو اور دیگر نے پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سندھ 1940 کی تاریخی قرارداد کے تحت پاکستان میں شامل ہوا تھا، پاکستان کے قیام کے بعد جمہوریت دشمن اور ملک دشمن قوتیں قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان پر قابض ہوگئیں اور ایک طویل منصوبہ بندی سے سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین، شہروں، نوکریوں اور روزگار کے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا، ون یونٹ نافذ کر کے سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینیں غیر مقامی لوگوں کے حوالے کی گئیں، دریائے سندھ کی تین ندیاں بھارت کو بیچ کر سندھ کے ساتھ تاریخی فراڈ کیا گیا، اگرچہ نام کے طور پر ون یونٹ ختم کر دیا گیا، لیکن پچھلی نصف صدی سے سندھ پر قوموں کے وجود پر وار کرنے، روزگار، زمینیں، پانی، دریا اور وسائل کو کھانے والا ون یونٹ اب بھی موجود ہے۔ دوسری طرف پچھلے 16 سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس دوران پیپلز پارٹی نے سندھ کو ترقی دینے کے بجائے رشوت خوری، اقربا پروری، ڈاکو راج، لاقانونیت، انتہا پسندی، زراعت کی تباہی سمیت تمام اداروں کو برباد کر کے سندھ کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے، یہاں تک کہ اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ،سندھ جو تیل، کوئلے، گیس اور دیگر معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، اس کے عوام بھوک، بے روزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت سمیت کئی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق سندھ میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، 50 فیصد خواتین میں خون کی کمی ہے اور سندھ کے 70 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، سندھ میں خواتین پر ظلم کی حالت یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہر 6 ماہ میں 200 خواتین قتل کی جاتی ہیں، ہر ہفتے 26 خواتین اغوا ہوتی ہیں، ہر سال لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں زبردستی مذہب تبدیل کروا کر شادی کرنے کے 30 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور ہر سال 1000 سے زیادہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ فاطمہ پھڑرو، پریا کماری، تانیا خاصخیلی، نازیہ چنہ، فضیلہ سرکی، نائلہ رند، نوشین کاظمی، نمرتا چندانی اور جیکب آباد کی پولیو ورکر کے واقعات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ ان دل دہلا دینے والے واقعات سمیت خواتین پر ظلم و ستم کے کئی اور واقعات روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو مسلسل چوتھی بار سندھ حکومت اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر دیگر ممالک کی کمپنیوں کے حوالے کرے، ارسا ایکٹ میں غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے ترمیم کر کے سندھ کے پانی پر قبضہ کیا جائے اور دریائے سندھ سے 6 کینال نکال کر سرسبز سندھ کو ویران اور بنجر صحرا میں تبدیل کر کے سندھ کے عوام کی نسل کشی کی جائے، اس وقت ون یونٹ سے بھی زیادہ خطرناک منصوبوں کے ذریعے سندھ پر حملہ کیا جا رہا ہے، سندھ اور سندھی قوم کا وجود خطرے میں ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینیں فوج سے منسلک کمپنیوں کے حوالے کرنے، ارسا ایکٹ میں ترمیم، دریائے سندھ سے کینال نکالنے اور سندھ کی خواتین پر ہونے والے دل دہلا دینے والے مظالم کے خلاف سندھیانی تحریک کی جانب سے 17 نومبر کو ’’سندھ کے پانی، زمینیں اور وسائل پر قبضے، خواتین پر ظلم اور انتہا پسندی کے خلاف مارچ‘‘ کے عنوان سے ریگل چوک سے پریس کلب کراچی تک احتجاجی مارچ اور پُرامن جلسہ منعقد کیا جائے گا جس میں آپ کی معرفت سندھ اور ملک بھر کے تمام باشعور صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، قلمکاروں، فنکاروں، طلبہ، کسانوں، مزدوروں اور ملازمین کو بھرپور شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔