سات اکتوبر سے سات اکتوبر تک پورا ایک سال ہوگیا فلسطین اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو جس میں فلسطینی عوام اور عسکری قیادتوں کی قربانیوں نے وہ تاریخ رقم کردی جس کو دبانے کے لیے اسرائیلی تھنک ٹینکوں نے کئی عشروں سے کوششیں کی مگر دوہزار تیئس سات اکتوبر کو ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے فلسطینی مزاحمت کو تاقیامت جلا بخش دی، بظاہر تو جنگ دو ملکوں کے درمیان ہوئی مگر اس جنگ میں ایک جہاں بھی سمٹ آیا، اور سب کی حمایت اسرائیل کے ساتھ ہی نظر آئی، امریکا کے بغل بچہ ہونے کے ناتے۔ تاہم مسلم حکمران بھی اپنی محبتیں اسرائیل پر ہی نچھاور کرتے نظر آئے۔ آخر ایسا کیا تھا جس نے حماس کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا، اس کی وجہ دنیا کے سامنے اس وقت آئی جب لوگوں کو پتا چلا کہ یہ قوم پچھلی کئی دہاِئیوں سے ایک پنجرے میں قید تھی، اور اس پنجرے کا نام غزہ تھا اور اس کے پنچھی اس میں مقید فلسطینی عوام تھے، بہرحال سات اکتوبر کے بعد دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح سے امریکی بغل بچے نے مظلوموں پر ظلم و جبر کا وہ پہاڑ توڑا اس کا اس جدید دنیا میں کوئی ثانی نہیں یا کوئی دوسری مثال اگر موجود ہے تو برما میں چھوٹے بچوں کو بھی زندہ جلادیا گیا تھا، تیسری مثال شام کی جہاں عوام کی زندگیوں کی شام کردی گئی، چوتھی مثال کشمیر کی جہاں زندگی جینا محال کردی گئی، پانچویں مثال افغانستان کی جہاں جنگ کئی عشروں پر محیط رہنے کے بعد اور ہزاروں زندگیاں ختم ہونے کے بعد بالآخر امن کی فاختہ نے وہاں امن کی نوید سنادی۔
بہرحال یہ ساری جنگیں تو اپنے ساتھ ہی ساری کہانیاں سمیٹ کرلے گئی، لیکن دور جدیدمیں اسرائیل کی جانب سے وہ انسانیت سوز ظلم ہوئے جو شاید تاریخ کے احاطے سے بھی باہر ہوں، اس جنگ میں بظاہر جیت تو اسرائیل کی نظر آرہی ہے، مگر اس جنگ نے ایک نظریہ کو زندگی بخش دی ہے اور وہ نظریہ ہے آزادی، جس کے بعد سے اب تک لاکھوں فلسطینی عوام اپنی زندگیوں کی بازی لگا کر اس کو برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک چوبیس لاکھ کے قریب فلسطینی زندہ درگور ہیں، اعداد و شمار کے مطابق بائیس ہزار کے قریب غزہ کے ایسے شہری ہیں جو زندگی بھر کے لیے مکمل معذور ہوگئے ہیں، ایک لاکھ سے زائد زخمی اور اس جنگ کے جو سب سے بڑے متاثرین ہیں وہ ہیں جو شاید اب دنیا میں تو نہیں مگر قیامت تک کے لیے امر ہوگئے ہیں اپنی شہادتوں سے۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی بھی دنیا کے سامنے ہے، جس نے کسی بھی ایسی امدادی تنظیم کو نہیں چھوڑا جو فلسطین جنگ میں پھنسے شہریوں کی مدد کررہی تھی، چاہے وہ ہلال احمر ہو یا ریڈ کراس یا عالمی ادارہ برائے امداد ہو یا عالمی ادارہ برائے صحت یا عالمی ادارہ برائے انسانیت غرض کہ ارض المقدس فلسطین میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی شاید اس دنیا میں تو نیتن یاہو کو اکیسوی صدی کا چنگیز خان کا خطاب حاصل ہوجائے، اسرائیل نے اس جنگ میں تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر زی روح کو اپنی بارودی طاقت سے خاک و خون میں ملادیا اور ایسی درندگی کی کہ شیطان بھی شرماجائے، عورتوں، بچوں و بوڑھوں سمیت شیرخواروں کی بھی ایک بڑی تعداد اس کا نشانہ بنی، ان کے حملے دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر کی سل ہے جس کی پوجا نے ان کو پتھر کی طرح بے حس کردیا۔ اس جنگ میں اگر فلسطین کا نقصان کا اندازہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ دنیا کتنے بڑے انسانی المیہ سے دوچار ہوئی مگر اس دنیا میں سوائے مسلمان کے سب کے خون کی قیمت ہے بس ایک خون مسلم ہی ہے جو بڑی آسانی سے ہاتھ آجاتا ہے یا ہاتھ کردیا جاتا ہے۔
غزہ کے اسپتالوں میں خاک و خون کا کھیل کھیلا گیا جاں بلب زخمیوں کو بھی نہیں چھوڑا، چھوٹے چھوٹے معصوموں کو بڑے بڑے بموں سے اڑا کر رکھ دیا دھجیاں اڑادی، بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے، کبھی پناہ گزین کے کیمپوں پر تو کبھی شیلٹرز ہوم پر تو کبھی راہ چلتے یا میدانوں میں کھیلتے بچوں کو بھی اپنی سفاکیت کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکے، مگر شاباش ہے فلسطینی عوام کے حوصلوں کو جنہوں نے اپنے جذبہ آزادی کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا، اس جنگ میں فلسطین عوام کو ہر اس سہولت سے محروم کردیا گیا، جس سے زندگی کی کچھ رمق باقی بچے، کھانا کھاتے ہوئے باورد برد کر دیا، کھلے آسماں تلے بے سائباں لوگوں کو بموں سے اڑاکر رکھ دیا، اسکول، اسپتال، شیلٹرز ہومز، گلی محلے شہریوں کی محفوظ پناہ گاہیں، خواہ کوئی بھی ایسا مقام نہیں بچا جہاں بمباری نہ کی گئی ہو اور لوگوں کو خون میں نہلایا نہ گیا ہو، شہیدوں کی میتیں تک لیجانے کے لیے کوئی سفری سہولت نہ بچی، حتیٰ کہ اسرائیل نے شہیدوں کی لاشوں سے بھرے ٹرک بھیجے اور لاشیں بھی ایسی کہ پہنچانی نہ جائیں، اس پر بھی اس ظالم کو رحم نہ آیا، پھر شہیدوں کی قبروں کو بھی بارود سے اڑا دیا مبادا کہیں یہ شہداء دوبارہ قبروں سے نکل کر اسرائیل پر حملہ نہ کردیں، جب خوف کا یہ عالم ہو تو پھر اسرائیلی فوج جنگ نہیں لڑرہی ہے بلکہ وہ صرف اور صرف انسانیت پر ظلم کا پہاڑ توڑ رہی ہے، اور ساری دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔
اس ایک سال میں چشم فلک نے وہ مناظر بھی دیکھے جو شاید دیکھے بھی نہ جاسکیں، مگر اس سارے عمل میں فلسطین سے ملحقہ اسلامی ممالک کا کردار بھی خوب کھل کر سامنے آیا، جس طرح سے فلسطین اور مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا، ایسے میں تو میرے لیے سب سے زیادہ محترم ساری دنیا اور باالخصوص کولمبیا یونیورسٹی کے وہ طلبہ ہیں جنہوں نے آج تک فلسطینی کاز کو اپن سینے سے لگا کر امریکا و یورپ کی سڑکوں پر وہ مظاہرے کیے شاید اس کی نظیر ساری مسلم دنیا میں بھی نہ مل سکے، کہتے ہیں اور بتایا بھی یہی گیا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم میں کہی بھی کوئی تکلیف ہو تو پورا بدن اس کو محسوس کرتا ہے، جبھی تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر بیت المقدس کی آزادی کے لیے برسوں جدوجہد کی، محمد بن قاسم عرب سے سرزمین ہند پر ایک مظلوم عورت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی مدد کو آیا، تو پھر کیوں آج مسلم حکمرانوں کی آنکھ پر مصلحت کی پٹی بندھی ہوئی ہے، کیوں اس بھیانک ظلم پر آنکھیں موند لی ہیں، اللہ کی دی ہوئی ساری طاقت کیوں طاغوت کی فرمابرداری میں جھونک دی ہے، کیوں خاموشی کی پٹی اپنے زباں پر چپکا رکھی ہے کہ کہیں اس عارضی دنیا کے عیش و عشرت ان سے نہ چھین جائے یا شاید حق و باطل کی اس جنگ میں ان سے طاغوت اس دنیا کی وقتی عیش و آرام واپس نہ لے جائے، اور شیطان کے چیلے ان سے ناراض ہوکر ان کو پتھروں کے دور میں نہ پہنچادیں۔
بات بہت طویل ہوجائے گی، قصہ مختصر اس جنگ کے نتائج کو گریٹر اسرائیل کے منصوبوں تک جاتا دیکھ رہا ہوں اور جس طرح سے اسرائیل اپنے اطراف کے ملکوں پر حملے کررہا ہے اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گریٹر اسرائیل اب نتین یاہوکی ریڈ لائن بن چکا ہے۔ جبکہ مسلم حکمران اس کبوتر کے مانند ہوچکے ہیں جو بلی کو دیکھ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور بالاآخر بلی اس کو چٹ کرجاتی ہے، اب بھی وقت ہے مسلم حکمراں ہوش کے ناخن لیں ایسا نہ ہو کہ پھر آسمان اور زمین پر کہی بھی سر چھپانے کی جگہ نہ ملے کیوں کہ مظلوموں کی دعا عرش کو بھی ہلادیتی ہے تو انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ایک ذرۂ خاک۔