بروز جمعرات 3 اکتوبر کو سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع تاریخی اور قدیم شہر جیکب آباد میں ایک بے حد دل خراش سانحہ رونما ہوا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف تمام اہل شہر بلکہ سندھ بھر کے عوام میں ایک طرح سے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی اور مقامی گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج کے جواں سال پروفیسر انور علی پنھیار کی جانب سے سود خوروں کی طرف سے مسلسل ستائے جانے، تنگ اور ہراساں کرنے پر اپنے گھر کے کمرے میں گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلینے کی خبر نے سبھی کو افسردہ اور دکھی کر ڈالا تھا۔ مرحوم پروفیسر نے قبل از خودکشی اپنے تحریر کردہ ایک خط میں اپنی خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے کا ذمے دار ان نصف درجن سود خوروں کے نام لکھ کر قرار دیا تھا جنہوں نے اس کی زندگی باوجود اصل رقم وصول کرنے کے بعد بھی محض اس پر سود کی عدم ادائیگی کی بنا پر دھونس دھمکیوں اور بلیک میلنگ کرکے اجیرن بنا ڈالی تھی۔ محکمہ پولیس جیکب آباد نے خط میں نامزد اور درج سود خوروں کے ناموں میں سے چند کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش شروع کردی ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ صوبہ سندھ جو باب الاسلام بھی ہے، یہاں پر دیگر برائیوں اور خرابیوں کے ساتھ ساتھ سود جیسا مکروہ اور گھنائونا دھندا بھی اپنے زوروں پر ہے۔ ہندو برادری کے امیر افراد کے ساتھ ساتھ سندھ کی حکومتی جماعت کے مقامی ذمے داران بھی سودی لین دین کے گناہ کبیرہ میں صوبہ بھر میں ملوث ہیں۔ بھاری شرح سود پر ضرورت مند افراد کو جو قرضہ دیا جاتا ہے اگر وہ بروقت واپس نہ ملے تو ضمانت کے طور پر رکھوایا گیا سونا، مکان یا زرعی زمین سود خور افراد ضبط کرلیتے ہیں۔ سرکاری تنخواہ دار ملازمین سے ان کی تنخواہوں کے چیک بطور ضمانت پیشگی لے لیے جاتے ہیں اور بڑی بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ سود خور افراد ضرورت مندوں کا بہت برے طریقے سے استحصال کرتے ہیں۔ قانون کی کوئی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے ان سنگدل سود خوروں کو کسی سزا کا کوئی خوف نہیں ہے۔ ویسے بھی جب خوفِ خدا ہی ختم ہوجائے تو پھر بھلا دنیاوی سزائوں کا خوف کسی کا کیا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔
مذکورہ پروفیسر کی جانب سے سود خوروں کی طرف سے ستائے جانے پر خودکشی کا سانحہ کوئی پہلا ہے اور نہ ہی آخری بلکہ اس نوع کے اکثر سانحات کی خبریں بذریعہ میڈیا سندھ کے مختلف علاقوں سے آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ظالم و جابر سود خوروں پر گرفت کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے اور وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ مجبور اور ضرور مند افراد کا استحصال کرنے میں ایک عرصے سے لگے ہوئے ہیں۔ سودی کاروبار اور لین دین کے بارے میں دین اسلام میں واضح طور پر اظہار ناپسندیدگی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف اللہ کی ناراضی اور مواعید کا ذکر ملتا ہے۔ پیارے نبیؐ نے بھی سود کی تباہ کاریوں کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ احادیث نبویؐ کی روشنی میں سود کا ایک درہم کھانا (جان بوجھ کر) 36 دفعہ زنا کرنے سے بھی زیادہ بدترین ہے۔ سود اللہ اور رسول خداؐ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے اور سود کھانے اور کھلانے والے پر اللہ کی لعنت ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی سود خور بغیر توبہ تائب کیے مرجاتا ہے تو اس کے لیے داخل جہنم ہونے کی وعید بیان کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سودی مال کو برباد کرنے کا اعلان تک کیا ہے۔ سود کے خلاف بہ کثرت مواعید کے باوجود حکومتی سطح سے لے کر عوام تک میں اس مکروہ عمل کا فروغ حد درجہ افسوسناک اور خطرناک ہے۔ سود خور کی نہ تو دُعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا صدقہ یا کوئی مالی عبادت ہی کوئی پزیرائی یا قبولیت حاصل کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سود خور حلال اور پاکیزہ اشیا سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اس کے باوصف دین اسلام کے نام پر حاصل کردہ ہمارے ملک میں حکومتی سرپرستی میں سودی لین دین کا فروغ کسی المیے سے کم ہر گز نہیں ہے۔ سید مودودیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’سود‘‘ میں بڑی عمدگی اور خوبصورتی کے ساتھ بڑے موثر اور مدلل انداز میں سود کے نقصانات اور تباہ کاریوں کو بیان کیا ہے۔ اصل رقم سے زیادہ رقم وصول کرنا سراسر غلط اور قابل مذمت ہے۔ رقم کے علاوہ دوسری کسی چیز پر بھی سود لینا حرام ہے۔ سود خوری کی وجہ سے روپیہ ایک ہی مقام پر رُک کر جمود کا شکار ہونے سے اس کی گردش ختم ہوجاتی ہے۔ جو کاروباری سرگرمیوں کے لیے ایک طرح سے سم قاتل کے برابر ہے۔
پاکستان کے سرکاری ادارے خصوصاً بینک بھی سود کے مکروہ دھندے میں ملوث ہیں اور ضرورت مند مجبور افراد کو بھاری شرح سود پر قرضہ دے کر ان کا بہت برے طریقے سے استحصال کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ آف پاکستان میں یہ بل پاس ہوچکا ہے کہ سود کا کاروبار کرنے والے پر 10 برس قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ کتنی بڑی منافقت ہے کہ ایک طرف تو خود حکومت کے ادارے اور بینک سودی مکروہ دھندے میں سر تا پا ملوث ہیں اور دوسری طرف حکومت کے ایوان میں اس گھنائونے سودی لین دین کے خلاف وہ بل بھی پاس کردیا گیا ہے جس پر کبھی عمل درآمد ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس پر کوئی عمل ہونے کا رَتی برابر امکان ہے۔ بہت زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب عام لوگ بھی سودی کاروبار کرنے میں کوئی قباحت یا شرم محسوس نہیں کرتے۔ صوبہ سندھ میں سود خور مافیا نے عوام کا جینا اجیرن کر ڈالا ہے۔ اس مافیا کی وجہ سے مجبور اور ضرورت مند افراد خودکشی جیسا ناپسندیدہ قدم تک اُٹھا لیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سودی لین دین میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تا کہ آئندہ کوئی اور مجبور فرد سودی مافیا کے ہتھکنڈوں سے تنگ آکر خودکشی جیسے ناپسندیدہ فعل کا ارتکاب نہ کرسکے۔ آخر میں علامہ اقبالؒ کے اس حوالے سے چند اشعار بھی پیش خدمت ہیں:
شاعر مشرق اپنی مشہور نظم ’’لینن‘‘ خدا کے حضور میں جو ان کے مجموعہ کلام ’’بال جبریل‘‘ میں شامل ہے، فرماتے ہیں۔
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دُنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات