فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس میں ‘تمام سیاسی جماعتوں نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اس کانفرنس کا ‘تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا ‘کانفرنس کے اعلامیہ میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام ‘ غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کونسل کشی پر مبنی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرانے ‘مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔کانفرنس سے صدر، وزیر اعظم،سیاسی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا اور پاکستان کے عوام کی ترجمانی کی ،صدر مملکت آصف علی زرداری نے مقبوضہ بیت المقدس سمیت مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا ‘وزیر اعظم شہبازشریف کا کہناتھاکہ اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے کیلئے ماہرین پر مشتمل ورکنگ گروپ کو دنیاکے اہم ممالک میں بھیجاجائیگا‘امیر جے یوآئی مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل کسی صورت قبول نہیں‘مسلم لیگ (ن)کے صدر نوازشریف نے کہاکہ اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے اور وہ اس کا استعمال اگر آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری کاکہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سیاسی اور سفارتی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں‘امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ حماس ایک قانونی تنظیم ہے‘پاکستان میں حماس کا دفترقائم ہونا چاہیے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے کہاکہ دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے‘اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور ہم اسے ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے۔حماس ایک قانونی تنظیم ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح مؤقف اپنانا چاہیے۔دو ریاستی حل کی بات کرنا بھی قائد اعظم کے موقف سے روگردانی ہے۔چند روز قبل تک کی صورتحال میں اس قسم کے قومی موقف کے بارے میں سوچنا مشکل امر تھا لیکن جماعت اسلامی نے پہلے یکم تا سات اکتوبر ہفتہ یکجہتی فلسطین ولبنان منانے کا اعلان۔ کیا اور چھہ اکتوبر کو غزہ ملین مارچ کا اعلان کیا پھر حکومت اپوزیشن سمیت تمام پارٹیوں کے پاس حافظ نعیم الرحمن خود گئے اور مارچ میں شرکت کا دعوت نامہ دیا جس کے اچھے نتائج آئے اور سب پارٹیوں کی نمائندگی ہوئی،پھر حکومت نے بھی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی اس طرح فلسطین کے مسئلے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور ایک مضبوط موقف سامنے لانے میں جماعت اسلامی اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔خصوصا دو ریاستی حل کے بجائے آزاد فلسطینی ریاست کے مضبوط موقف کے لیے بھرپور دلائل دیے۔اس کا نفرنس میں ماہرین کی کمیٹی بنا کر دنیا کے اہم ممالک بھیجنے کا بھی اعلان ہوا۔ اگر اس کانفرنس کے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو بھی اسرائیل کے ہاتھ روکے جاسکتے ہیں۔ اور اسلامی ممالک تو اتنی بڑی قوت ہیں کہ اگر یہ سب میدان میں آجائیں تو اسرائیل اور اس کے سرپرست بھی الٹے قدموں دوڑ لگا دیں گے ،دنیا میں اسوقت اسرائیل کے خلاف فضا ہے اگر پاکستانی وفود بہترین طریقے سے ترجمانی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیل کے قدم پیچھے ہٹیں اور اس سے قبضہ کیے ہوئے علاقے واپس لیے جاسکیں۔ اگرچہ تقریروں اور عمل میں بڑا فاصلہ ہوتا ہے اور ہمارے حکمران تو اس کام میں ماہر بھی ہیں کہ تقریر کچھ اور عمل کچھ۔ لیکن فلسطین کے معاملے میں تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتوں کا موقف یکساں ہے اور تحریک انصاف کا موقف بھی یہی ہے اگر وہ نمائندگی کرلیتی تو دنیا میں اچھا پیغام جاتا ،کیونکہ وہ ایک اہم اور بڑی سیاسی جماعت ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومتی اقدامات بتائیں گے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا سوچ رہی ہے۔اسے اب تقریروں اور قراردادوں سے آگے بڑھنا ہوگا۔ایک بات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ ماہرین کے نام پر پارٹی کے لوگوں اور حکمرانوں کے رشتہ داروں کو سیر سپاٹے کے لیے نہ بھیجا جانے لگے ،یہ بھی پھر کشمیر کمیٹی اور کشمیر کے وفود کی طرح ہو جائے گا ،اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا لوگ سیر کرنے لگیں گے ،اور یہ سرکاری خزانے پر مزید بوجھ ہوگا۔