قاضی فائز بے نظیر فیصلہ کب دیں گے

238

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں کی مثالوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔ عدالت عظمیٰ میں محکمہ آبادی پنجاب کے ملازم کی نظر ثانی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر آئینی اقدام کی توثیق کا اختیار ججز کے پاس کہاں سے آجاتا ہے، ججز کی اتنی فراخ دلی ہے کہ غیر آئینی اقدام کی توثیق کردی جاتی ہے، عدلیہ کبھی مارشل لاء کی توثیق کر دیتی ہے، کیا ججز آئین کے پابند نہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں یہی ہو رہا ہے ایک کے بعد دوسرا مارشل لاء آجاتا ہے، عدالتی فیصلہ کا حوالہ وہاں آئے جہاں آئین و قانون کا ابہام ہو، عدالتی فیصلہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا، لگتا ہے وقت آگیا ہے ججز کی کلاسز کرائی جائیں، کیا جج بننے کے بعد آئین و قانون کے تقاضے ختم ہو جاتے ہیں، وکلاء کو آئین کی کتاب سے الرجی ہو گئی اور وہ اب آئین کی کتاب اپنے ساتھ عدالت نہیں لاتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کبھی کہا جاتا ہے نظر ثانی درخواست جلدی لگا دی،اور کبھی کہا جاتا ہے ڈھائی سال پرانی نظر ثانی کیوں لگائی۔ معزز چیف جسٹس کے پاس بھی اب زیادہ وقت نہیں ہے وہ ریٹائرمنٹ سے قبل ایسی نظائر پیش کرنے پر پابندی لگائیں اور مارشل لا کو جائز قرار دینے کے فیصلوں کو کالعدم یا آئندہ کیلیے قرار دیں کہ جو جج مارشل لا یا غیر آئینی عمل کی توثیق کرے گا وہ ازخود ملازمت کیلیے نااہل قرار پاجائے گا اور اس سے سینیارٹی میں قریب ترین جج اس کی جگہ لے لے گا۔یہی اصول فوج میں بھی نافذ کردیں کہ مارشل لا لگانے والا افسراس عمل کے ساتھ ہی فوج سے ریٹائر اور تمام مراعات سے محروم ہوجائے گا۔اور اس کے بعد سینئر ترین افسر آرمی چیف بن جائے گا۔ کیوں قاضی صاحب ایسا بے نظیر فیصلہ کب دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ وکلا کی کلاسز لی جائیں ،اور ججز کی بھی کلاس لینے کی ضرورت ہے ، کم از کم ایک اور کام کردیں کہ ججز کو سیاسی اور ہائی پروفائل مقدمات میں ریمارکس دینے سے روک دیں ،ریمارکس کی بیماری بھی بہت خراب ہے ،اور اس اصول یا روایت کے بھی خلاف ہے کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں، لیکن یہاں تو ججز مسلسل ریمارکس کی صورت میں بول رہے ہیں۔ یہ سلسلہ رکے گا تو ججز نہیں ان کے فیصلے بولیں گے۔