مقبوضہ کشمیر:غیور کشمیریوں نے بی جے پی کا غرور خاک میں ملاد یا‘عبرتناک شکست

49

سری نگر/چندی گڑھ(مانیٹرنگ ڈیسک+اے پی پی)غیور کشمیریوں نے مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کا غرور خاک میں ملادیا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جبری انتخابات میں مودی سرکار ہر قسم کے ہتھکنڈوں اور سرکاری مشینری استعمال کرنے کے باوجود عبرتناک شکست سے دوچار ہوگئی ۔بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 18 ستمبر سے یکم اکتوبر کے دوران 3 مراحل میں مکمل ہونے والے الیکشن کے نتائج کا اعلان منگل کردیا گیا۔ ووٹرز کی اکثریت نے الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملیں جسے ووٹرز کی مودی سرکار کے خلاف ’’ بیلیٹ احتجاج‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس اپوزیشن جماعت کانگریس کا انتخابی اتحاد 90 میں سے 51 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس انتخابی اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 2 نشستیں حاصل کرپائی جو حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہوجائے گی۔یاد رہے کہ مودی سرکار نے کالے قانون کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے لداخ سے جدا کیا اور پھر انہیں اکائیوں کی صورت دے کر وفاق میں ضم کرلیا تھا۔اس غیر آئینی اقدام پر مسلم رہنما عدالت گئے لیکن تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا جس کے بعد ہونے والے 2 انتخابات میں کشمیری عوام نے حریت جماعت کی اپیل کے باعث ٹرن آؤٹ نہایت کم رہا ہے۔دوسری جانب ریاست ہریانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں تمام ایگزٹ پولز کو غلط ثابت کرتے ہوئے بی جے پی نے مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کرلی ۔ہریانہ میں ہونے والے الیکشن کے نتائج کانگریس کے لیے حیران کن ثابت ہوئے، آخری لمحے میں جیت کی تھاپ تھم گئی اور جشن روکنا پڑ گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاستی اسمبلی کی کل 90 نشستوں میں سے بی جے پی کو 48 اور کانگریس کو 37 نشستیں ملی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے 46 نشستوں کی ضرورت تھی تاہم الیکشن کمیشن نے تاحال حتمی نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے۔کانگریس نے ہریانہ میں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ نتائج مکمل طور پر غیر متوقع، حیرت انگیز اور زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔5اکتوبر کو پولنگ کے اختتام کے بعد نشر ہونے والے پولز کے نتائج میں کانگریس کو واضح اکثریت اور بی جے پی کو کم سیٹیں ملتی دکھائی گئی تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران بھی بی جے پی کے خلاف ماحول نظر آرہا تھا۔تجزیہ کاروں اور صحافیوں کا خیال تھا کہ بی جے پی کی 10 سالہ حکومت کے خلاف عوامی جذبات اور کسانوں، جاٹوں، پہلوانوں اور نوجوانوں کے ساتھ مبینہ طور پر حکومت کے ناروا سلوک کی وجہ سے بی جے پی کی شکست لازمی ہے لیکن نتائج اس کے برعکس آئے ہیں۔منگل کی صبح جب ووٹوں کی گنتی کا آغاز ہوا تو دو تین گھنٹے تک آنے والے رجحانات میں کانگریس کو زیادہ اور بی جے پی کو کم سیٹیں ملتی نظر آرہی تھیں لیکن جوں جوں گنتی آگے بڑھی سیٹوں میں فرق کم ہوتا گیا اور بالآخر بی جے پی کانگریس سے آگے نکل گئی۔ہریانہ کے 1996ء میں ریاست بننے کے بعد کوئی بھی پارٹی مسلسل 3بار حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق انتخابی مہم کے دوران جاٹ اکثریتی علاقوں میں حکومت کے خلاف زبردست رجحان تھا۔ یہاں تک کہ بعض علاقوں میں بی جے پی امیدواروں کا داخلہ ممنوع تھا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک طرف جہاں بی جے پی کے خلاف اور کانگریس کے حق میں جاٹ ووٹ متحد ہوا وہیں دوسری طرف ا س کے جواب میں غیر جاٹ ووٹ بی جے پی کے حق میں متحد ہو گیا۔ بی جے پی نے بھی غیر جاٹ ووٹوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔البتہ اولمپک پہلوان ونیش پھوگاٹ نے کانگریس کے ٹکٹ پر جولانہ حلقے سے کامیابی حاصل کی۔دہلی اور پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی کو امید تھی کہ ہریانہ میں اسے کچھ سیٹیں مل جائیں گی لیکن اس کی کارکردگی انتہائی غیر مؤثر رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسے 1.78 فیصد ووٹ ملا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر کانگریس اور عام آدمی میں انتخابی اتحاد ہوگیا ہوتا تو اپوزیشن کے ’انڈیا‘ بلاک کو زیادہ نشستیں مل جاتیں۔کانگریس نے دوپہر کے وقت الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی اور کہا کہ وہ انتخابی نتائج اپ ڈیٹ کرنے میں سستی سے کام لے رہا ہے جس کی وجہ سے کنفیوژن پھیل رہا ہے۔ کانگریس کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش کے مطابق اسی طرح لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر نتائج کو اپ ڈیٹ کرنے میں سستی سے کام لیا جا رہا تھا۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ اس طرح بی جے پی نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے۔الیکشن کمیشن نے اس شکایت کو مسترد کر دیا۔ اس نے جے رام رمیش کے میمورنڈم کے جواب میں کہا کہ ہریانہ اور جموں و کشمیر میں ووٹوں کی گنتی قانونی ضابطوں کے مطابق امیدواروں اور مبصرین کی موجودگی میں ہو رہی ہے۔ اس کے مطابق کانگریس کے بے بنیاد الزام کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔بعد ازاں جے رام رمیش نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ہریانہ کے انتخابی نتائج مکمل طور پر غیر متوقع، حیرت انگیز اور زمینی حقائق کے برخلاف ہیں۔ عوام نے ریاست میں تبدیلی کا جو ذہن بنایا تھا یہ نتائج اس کے بھی خلاف ہیں۔ ان حالات میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ان نتائج کو تسلیم کر لیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کم از کم 3اضلاع سے ووٹوں کی گنتی کے عمل اور الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے سلسلے میں سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں, ہم نے ہریانہ میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی ہے اور اس سلسلے میں تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ان کے بقول ہم ان تفصیلات کو آج بدھ کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں گے اور کمیشن سے ملاقات کا وقت مانگیں گے۔ انہوں نے بی جے پی کی جیت کو ساز باز کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ کانگریس کے دیگر رہنماؤں نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔