7 اکتوبر کو غزہ میں جنگ کے آغاز کو ایک سال پورا ہو جائے گا، جس دوران اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف نے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ 1917 میں برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ بالفور اعلامیے نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں اس علاقے میں یہودیوں کی بڑی تعداد نے نقل مکانی کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948 میں اسرائیل کی ریاست کا قیام عمل میں آیا، جس کے بعد یہودی آبادکار بڑی تعداد میں اس نئی ریاست میں منتقل ہوئے۔ تب سے اسرائیل نے غریب مسلمانوں سے زمین حاصل کی ہے اور مختلف جوازوں کے تحت اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کو وسعت دی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے اتحاد کو انسانی حقوق، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور اخلاقی اصولوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بچوں، خواتین اور غیر جنگجو افراد کو نشانہ بنانے کا کھلا اعلان عالمی سطح پر ایک تشویشناک تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے جہاں ’’طاقت ہی حق‘‘ کا نظریہ پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال آنے والے دنوں میں قانون کی حکمرانی اور انسانیت کے لیے ایک سنگین تشویش کو ظاہر کرتی ہے۔ اس حوالے سے دستیاب اعداد وشمار ہر انسان کے لیے چونکا دینے والے ہیں، زیر نظر مضمون میں درج ذیل عنوانات کے تحت اس پوری صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
انسانی المیہ: ایک سال سے جاری اسرائیلی ظلم و درندگی کے نتیجے میں اب تک 51,615 سے زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جن میں تقریباً 17 ہزار بچے اور 11,500 خواتین شامل ہیں۔ ہزاروں لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں، جب کہ تقریباً 96,210 افراد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں 69 فی صد بچے اور خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائلی حملوں میں 174 صحافی بھی قتل ہو چکے ہیں۔ بہت سے بچے بھوک کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو بار بار غزہ پٹی کے اندر بے گھر کیا گیا ہے، کیونکہ دنیا سے باہر جانے کے تمام راستے بند ہیں۔ اب تک 130 اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 9,500 قیدی غیر انسانی سلوک اور تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔
انفرا اسٹرکچر کی تباہی: انفرا اسٹرکچر کی تباہی کی حد چونکا دینے والی ہے۔ غزہ کی تقریباً 80 فی صد عمارتیں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا جزوی طور پر اور رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ 90 سے زیادہ اسکول اور یونیورسٹیاں تباہ ہو چکی ہیں، اور اندازاً 516,000 رہائشی یونٹ یا تو مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ جنگ کے نتیجے میں غزہ کے تقریباً دو تہائی گھروں کو نقصان پہنچا یا وہ تباہ ہو چکے ہیں، جبکہ 84 فی صد صحت کی سہولتیں پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ تباہی اسرائیل کی جانب سے گرائے گئے 45 ہزار سے زیادہ میزائل اور بموں کا نتیجہ ہے، جن کا مجموعی وزن تقریباً 85 ہزار ٹن ہے، جو ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے چھے گنا زیادہ ہے۔ اس تباہی کے نتیجے میں اندازاً 26 ملین ٹن ملبہ اور مٹی پھیل چکی ہے۔ اندازوں کے مطابق نقصان کم از کم 18.5 بلین ڈالر ہے، جس کی تصدیق واشنگٹن ڈی سی کے عرب سینٹر کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ پر گرائے گئے 45 ہزار بموں میں سے تقریباً 9 فی صد سے 14 فی صد بم پھٹ نہیں سکے ہیں جن کے بارے میں مئی 2024 کے اوائل میں اقوام متحدہ کے مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کو جنگ کے بچ جانے والے دھماکہ خیز مواد سے پاک کرنے میں کم از کم 14 سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ، 2 مئی کو رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے بکھرے ہوئے گھروں کی دوبارہ تعمیر میں کم از کم 2040 تک کا وقت لگ سکتا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ عمل کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ تاہم، 25 جولائی 2024 کو امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا، ’’اس دن کے بعد جب ہم حماس کو شکست دیں گے، ایک نیا غزہ ابھر سکتا ہے۔ میرے اس دن کے لیے وژن ایک غیر مسلح غزہ کا ہے۔ اسرائیل غزہ کو پہلے کی طرح دوبارہ آباد کرنے کی خواہش نہیں رکھتا‘‘۔
اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی: غزہ کی پٹی گولہ بارود کے سپلائرز اور مینوفیکچررز کے لیے ایک ’’ٹیسٹنگ لیبارٹری‘‘ بن چکی ہے۔ 2013 اور 2023 کے درمیان اسرائیل کو منتقل کیے جانے والے بڑے ہتھیاروں کا تخمینہ شدہ حجم میں، 65.6 فی صد ریاست ہائے متحدہ امریکا، 29.7 فی صد جرمنی اور 4.7 فی صد اٹلی کی طرف سے فراہم کیے گئے، جبکہ دیگر 10 ممالک نے بھی اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔ (ماخذ: SIPR)۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 28 جون تک، بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ سال اکتوبر سے اسرائیل کو بڑی مقدار میں گولہ بارود بھیجا ہے، جس میں کم از کم 14 ہزار MK-84 2,000 پاؤنڈ بم، 6,500 – 500 پاؤنڈ بم، 3,000- Hellfire پریسیڑن گائیڈڈ ائر ٹو گراؤنڈ میزائل، 1,000 بنکر بسٹر بم اور 2,600 ہوائی ڈراپ چھوٹے قطر کے بم شامل ہیں۔ دیگر اہم بموں کی اقسام میں ڈمب بم شامل ہیں، یہ غیر گائیڈڈ، فری فال بم ہیں جو جہاں بھی گرتے ہیں تباہی مچاتے ہیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 50 فی صد گولہ بارود جو اسرائیل نے غزہ میں استعمال کیا ہے وہ ’’ڈمب بم‘‘ ہیں، جیسا کہ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر کے تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح بنکر بسٹر بم سخت ڈھانچے میں گھسنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان کا وزن عام طور پر 900 کلوگرام (2 ہزار پاؤنڈ) سے زیادہ ہوتا ہے۔ غزہ کے معصوم اور مظلوم انسانوں پر استعمال ہونے والا ایک اور خطرناک بم JDAMs (جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک مونیٹیشن) کہلاتا ہے، یہ GPS کا استعمال کرتے ہوئے ہدف بنانے والے درست نشانے والے گولہ بارود ہیں اور پہلے دھماکے کے بعد فوری طور پر ثانوی حملے بھی کر سکتے ہیں، جس سے زخمیوں کی مدد کے لیے آنے والے امدادی کارکن اور شہری بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں الجزیرہ کی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ غزہ میں بغیر رنگ کا سفید فاسفورس ایک کیمیائی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت محدود ہے۔
آگے کیا ہوگا؟ اگر غزہ کا تنازع عالمی جنگ میں بدل جاتا ہے، تو دنیا تباہ کن تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔ عالمی طاقتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات کے فریم ورک پر دوبارہ غور کریں، جو انسانیت، انصاف اور اخلاقیات پر مبنی ہو۔ جنگ میں مصروفیت کے نئے اصولوں کی ضرورت ہے۔
عمل کا وقت: اگرچہ معاشی عدم توازن، غربت اور ماحولیاتی مسائل بلاشبہ اہم ہیں، لیکن فوری ترجیح انسانی زندگی کا تحفظ اور مشترکہ انسانیت کا احترام ہونا چاہیے۔ دنیا ان لوگوں کے زیر تسلط رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی جو انسانی روپ میں درندوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ قوموں کو اب فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے؛ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو مستقبل میں جنگل کے قانون کا غلبہ ہو سکتا ہے، جو انسانیت کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گا۔ لہٰذا یہ عمل کرنے کا وقت ہے، اب یا کبھی نہیں۔ لمحے کی فوری ضرورت ہماری اجتماعی تبدیلی کے عزم کا مطالبہ کرتی ہے۔
(مضمون نگار خیبر میڈیکل کالج پشاور کے ریٹائرڈ پروفیسر آف میڈیسن ہیں)