داستان استقامت

82

استقامت کیا ہے ڈٹ جانا کھڑے رہنا منجمد ہو کر کسی فیصلے پر اٹل رہنا صبر کے ساتھ صرف مقصد پر نظر رکھ کر قربانی کی ہر حد کو پار کر دینا۔ مگر اب یہ لفظ کسی مزید تعریف کا محتاج نہیں کیونکہ اس کی عملی مثال ہمارے سامنے اس انبیاء کی سرزمین کی صورت میں موجود ہے۔

اگر کوئی پوچھے کہ استقامت کیا ہے تو استقامت یہ ہے کہ سال پورا ہونے کو ہو دشمن ظلم و درندگی کے کسی انداز کو نہ چھوڑے اپنے سارے آپ سے منہ موڑیں مگر آپ دین الٰہی کے نفاذ اور اس کے غلبے کے لیے جمے رہیں کھڑے رہیں لہو لہان ہو کر بھی اس ربّ عظیم ہی کو پکاریں اور بنا کسی مایوسی کے فتح کی امید کے دیے جلائے رکھیں۔ ایک ماں اپنے بچے کی نعش کو لیے کھڑی اللہ اکبر کی صدا لگائے ایک باپ بچی کا کھلونا پکڑے حسبی اللہ ونعم الوکیل کہے۔ گھر ٹوٹ جائیں، اسپتال نہ رہیں غرض زندگی کا کیا سانس لینے کا بھی سر و سامان نہ ملے پھر بھی ہنستے چہرے قرآنی آیات کی ورد کریں۔ کٹے ہوئے اعضاء، مرمت زدہ اجسام، جلے ہوئے بدن، پھیلی ہوئی وبا، گرمی، دھوپ، بارش، زور آور ہوا، مسخ پھول سے معصوم اپنے اور دل خراش کر دینے والے ایسے مناظر کہ روح کانپ جائے۔ مگر ایسے حالات میں ہار نہ ماننا سر کٹوانے کو ترجیح دینا، سر جھکانے پر رضامند نہ ہونا، استقامت یہ ہے۔ آج اس سرزمین میں استقامت کی وہ داستان رقم کی ہے جو پہلے نہ کسی نے دیکھی نہ سنی ہاں فقط یہ غم ہے کہ اس استقامت کے باوجود بھی ہم ان کا ساتھ نہ دے پائے ان کے ساتھ اس دین کی استقامت میں اپنا حصہ نہ ڈال سکے اے ربّ ہم سے اس داستان کے اندر ایک قلیل کردار کی حیثیت کو قبول کیجیے۔ ہمیں روز حشر حساب کے وقت مذمت کے ساتھیوں میں شمار کیجیے طاغوت کے ساتھی انسانی حقوق کے جھوٹے علمبرداروں کے حلقے کا فرد نہ گردانیں۔ اے ربّ ہمیں اس استقامت کی دیوار میں چھوٹی سی اینٹ کا نہیں تو اس بجری کا حصہ بنادیں جو اس کو گرانے میں نہیں بنانے میں استعمال ہوئی ہو۔

غم اتنا ہے کہ لفظوں میں عیاں ہو نہیں سکتا
دکھ تیرا اب ہم سے بیاں ہو نہیں سکتا
جویریہ شاہ رخ