پیجر حملوں سے ایرانی مزاحمت تک:
غزہ پر اسرائیلی درندگی کو سال ہو چکا ، مطلب 12 ماہ۔فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بعد یہ طویل ترین جنگ ہے ، کیونکہ اس سے قبل جتنے حملے یا باقاعدہ جنگیں ہوئیں ہوئے وہ صرف چند روز پر محیط رہیں۔ یہ طویل ترین دورانیہ ہے جو کسی ملک کے ساتھ نہیں بلکہ محض 40 کلو میٹر کے ایک بند علاقے غزہ میں ایک پارٹی کے ساتھ جاری ہے۔ ایک جانب دنیاکے طاقتور ترین ممالک امریکہ، برطانیہ ، اسرائیل تو دوسری جانب محض ایک چھوٹی سی مقامی مزاحمتی جماعت ۔ دُنیا دیکھ چُکی ہے کہ ایک سال میں اسرائیل اپنا ایک ہدف بھی پورا نہ کرسکا۔ نہ اپنے مغوی طاقت کے زور پر آزاد کرا سکا اور نہ ہی تحریک مزاحمت ختم ہو ئی۔ یہ ضرور ہوا کہ اس کو لبنان ، شام اور یمن سے بھی مزاحمت ملی۔50 اسلامی ممالک تو اس ایک سال کے ابتدائی چند ماہ تک صرف بیان بازی ، مذمت اور اجلاسوں اور کچھ امداد ی سامان سے آگے نہ نکل سکے ۔ تباہی مستقل آج بھی جاری ہے۔غزہ کے شہدا کی تعداد انکی اپنی بچی کھچی وزارت صحت کے مطابق 50 ہزار ہو چکی۔ زخمیوں کی تعداد سوا لاکھ پر ہو چکی ہے جبکہ لاپتہ یا ملبوں میں دبے یا گرفتار افراد کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے۔اسرائیل نے مسلم نسل کشی کا ہر ممکن قدم اٹھا یا ہے۔ اس سال بھر میں بھوک قحط میں بدلی ، موسم کی شدت، علاج و صحت کی عدم سہولیات ، لاکھوں بے گھر افراد کی اَن گنت داستانیں جمع ہو چکی ہیں۔عزیمت و استقامت کا عالم یہ ہے کہ کوئی ’اُف‘ تک نہیں ۔یہ وہ فرض ہے جو ہم پر تھا مگر ادا وہ کر رہے ہیں۔قیادت سے لیکر عوام تک سب قربانیوںکا مظہر بنے ہوئے ہیں۔
لبنان میں اسرائیل کے چھوٹے حملوں کے بعد ، پیجر اور واکی ٹاکی حملوں نے بہت خطرناک اثرات مرتب کیے۔اسکے نتیجے میں ہی حسن نصرا للہ کا ٹھکانہ نشانے پر آیااور اب لبنان کے جنوبی شہروں پر اسرائیل نے باقاعدہ چڑھائی کر دی ہے۔مزاحمت میں حزب اللہ بھی پیچھے نہیں۔ہفتے بھر میں کوئی 300 راکٹ وہ بھی فائر کر چکے ۔وہاں بھی اب شہدا کی تعداد 1000پر پہنچ گئی ہے۔بڑے پیمانے پر نقل پیمانی ہو رہی ہے۔سوشل میڈیا پرمعلومات ، جنگی تباہی کی تصاویرا وروڈیوز کا تیز ترین بہاؤ جاری ہے۔پیجر اور واکی ٹاکی حملوں پر مستقل مواد لکھا جا رہا ہے کیونکہ اُن کی پلاننگ سب کی سمجھ سے باہر اور حیران کن ہے ۔ لبنان میں 40 فیصد عیسائی بستے ہیں، 60 فیصد مسلمان ہیں۔لبنان فرانس کی کالونی رہ چکا ہے۔انکی انتظامی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ صدر عیسائی ہوگا، وزیر اعظم سنی ، اسپیکر شیعہ ہوگا ۔2سرحدی شہروں پر حزب اللہ کا مکمل سیاسی کنٹرول بھی ہے کیونکہ وہ باقاعدہ الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعت ہے۔ یمن و شام بھی مستقل اسرائیل کے نشانے پر ہیں ۔ایسی صورتحال میں ایران نے بھی 6ماہ میں دوسری بار اسرائیل پر میزائل برسا دیئے ہیں۔اس بار بھی سوشل میڈیا پر جہاں ایران کے لیے تعریفی ، بہادری کے کلمات تھے وہاں بڑا نقصان نہ ہونے پر مذاق بھی بنایا گیا۔ لوگ سمجھاتے رہے کہ اگر وہاں حماس ایران کے ساتھ کھڑی ہے تو اس اصول پرہمیں بھی ایران کا ساتھ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر شاہنواز کی حقیقت:
16ستمبرگیارہ ربیع الاول کو جب پورے ملک میں نبی کریم ﷺ کی آمد کی خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ مگر سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں اچانک شدید غم و غصہ پھوٹ پڑتا ہے۔ عمر کوٹ کے گاؤں جھائنرو کے 18گریڈ کے ڈاکٹر شاہ نواز شاہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر انتہائی گستاخانہ مواد پر مبنی پوسٹس منظر عام پر آتی ہیں۔17ستمبر تک عمر کوٹ میں بھی یہ پوسٹس وائرل ہوتی ہیں ،یہ 12ربیع الا اول تھا ۔وہ مواد اس قدر گستاخانہ تھا جسے یہاں بتایا بھی نہیں جا سکتا۔عمر کوٹ کے غیرت مند مسلمانوں نے مقامی علما کو بتایا اور مشاورت کے بعد قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
اسی دن یعنی 17ستمبر کو عام تعطیل ہونے کے باوجود ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہاسپٹل عمر کوٹ نے اُس کو ڈیوٹی سے برخاست کا لیٹر جاری کردیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس لیٹر میں لکھے گئے الفاظ انتہائی اہم ہیں :
پولیس نے عوامی احتجاج پر گواہان، ثبوتوں اور بیانات کی روشنی میں شاہ نواز کے خلاف 295 سی ( توہین رسالت )کا پرچہ درج کر لیا۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ گستاخی کے ملزم کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اسکے لیے وہ تھانے کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
دوسری جانب ایک اور نامعلوم اکاؤنٹ (کنبھر علی )سے ڈھیر ساری وضاحتی پوسٹیں اور شاہنواز کی ایک وڈیو آتی ہے کہ یہ گستاخی میں نے نہیں ، میرا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے ۔ وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ اس سازش میں اس کے گھر والوں کا ہاتھ ہے۔اس وڈیوکو اہمیت اس لیے نہیں دی جاتی کہ پرچہ کٹنے کے بعد اب شاہنواز کو عدالت میں ہی ثابت کرنا ہوگا کہ کیا واقعی اسکا اکاؤنٹ چوری ہوا کہ نہیں۔
پولیس ملزم کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے بھی ملزم کے تحفظ کے لیے گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔اسی دن ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد حسین کے دستخط کے ساتھ ایک میڈیکل رپورٹ سوشل میڈیا پر جاری کر دی گئی کہ ملزم ڈاکٹر شاہ نواز 4سال سے نشئی اور ذہنی مریض کے طور پر اُن کے زیر علاج ہے۔ بہرحال مٹیاری، حیدر آباد اور آخر کار کراچی کے کئی مقامات پر ٹریس کرتے کرتے پولیس کراچی کے ایک ہوٹل کے کمرے سے ملزم کو حراست میں لےلیتی ہے ۔
جس شخص کو ذہنی مریض کہا گیا وہ اتنا ہوشیار تھاکہ اُسے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پرگستاخی کا بھی پورا علم تھا؟ پولیس تفتیشی رپورٹ کے مطابق وہ فرار ہو کر کراچی کے ہوٹل میں اپنی شناخت چھپاکر کمرہ لینے میں کامیاب ہوگیا تھاجو کہ ہوٹل قواعد میں انتہائی غیر معمولی بات ہے؟
اگلے دن صبح تھانے میں ڈی آئی جی، ایس ایس پی و دیگر افسران کو ایک مقامی این جی او کے عہدیداران اور پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نے پھولوں کے ہار پہنائے اور بہادری سے پولیس مقابلہ کرنے والے افسران کو مبارک باد بھی دی۔پھولوں کی کثیر تعداداور خوشی دیکھ کر سارے لبرل، سیکولر، ملحد طبقات کو شدید تکلیف ہوئی اور اُنہوں نے از خود پولیس مقابلے کو ماننے سے انکار کردیا ۔ ایک زبردستی کی نماز جنازہ کرائی اور شاہنواز کو فقیر، درویش بناکر پولیس کے خلاف اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔
حیرت کی بات ہےکہ علما نے تو ملکی قانون کا سہارا لیا، قتل جو بھی ہواوہ پولیس والوں نے خود کہا کہ مقابلے میں ہوا ، پھر علما کے خلاف احتجاج صرف اور صرف دین سے بغض و عداوت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جو لوگ احتجاج میں آگے آگے تھے اِن سب کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اسلام، پاکستان کے خلاف گستاخانہ مواد سے بھرے ہوئے تھے ۔پولیس کا کسی کو مقابلے میں قتل کرنا پاکستان میں تو حیرت کی بات ہی نہیں۔تاہم اسکا فیصلہ بھی عدالت ہی کو کرنا چاہیے ۔
اس سلسلے میں پولیس کی تفتیشی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں یہی کہا کہ پولیس مقابلہ ثابت نہیں ہوا ہے۔اس کا اصل فیصلہ تو اب عدالت ہی کرےگی ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا شاہ نواز بالکل بے قصور تھا؟یہ ٹھیک ہے کہ الزام جب تک ہو وہ ملزم ہی رہے گا بالکل اسی اصول پر شاہنواز کی اکاؤنٹ ہیک وڈیو کے بعد بھی وہ ملزم ہی رہےگا اور پولیس مقابلہ بھی عدالتی فیصلے تک پولیس مقابلہ ہی کہلائے گا۔
تاہم ہما را موضوع تو سوشل میڈیا ہے اس لیے ہم اُسی دائرے میں رہیں گے ۔سوشل میڈیا پولیس رپورٹ کے اگلے دن ایک اور وڈیو وائرل ہوئی ۔ اس وڈیو میں شاہنواز کے موبائل کے اندر کا مواد شیئر کیا گیا تھا ۔ یہ وڈیو ظاہر ہے کہ جس کے پاس موبائل تھا وہی بنا یا بنوا سکتا ہے اور کوئی نہیںکر سکتا۔ نہ ہی ایسی وڈیو کسی آرٹیفشل انٹیلیجنس طریقے سے بنائی جا سکتی ہے، کیونکہ جو اور جیسے شواہد اُس میں دیئے گئے ہیں وہ جب کسی بھی عدالت میں پیش ہوں گے تو کوئی انکار نہیں کر سکے گا۔وزیر داخلہ نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں ایک دن قبل ہی شاہنواز کے موبائل کی تحقیق کے آنے کا ذکر کیا تھا۔
وڈیو صاف طور پر بتا رہی ہے کہ شاہنواز کا کوئی فیس بک اکاؤنٹ ہیک نہیں ہوا تھا ۔ وہ خود ہی دونوں اکاؤنٹ چلا رہا تھا ۔ شاہنواز کے اصل فیس بک اکاؤنٹ پرجائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپریل 2024 میں بھی ایسا کچھ کر چکا تھا ، اسکا اقرار اُس نے خود Mistakenly hacked۔ جیسا ’جاہلانہ ‘جملہ لکھ کر کیا تھا۔یہ اُس کا پورا موڈ آف ایکشن تھا کہ گستاخی کرو پھر ہیکنگ کا رونا گانا مچاؤ۔یہی ترتیب ہمیں دیگر سوشل میڈیاگستاخوں کے کیسز میں بھی ملتی ہے۔
اس وڈیو میں شاہنواز کے واٹس ایپ کی بھی تفصیلات دکھائی گئی ہیں جس میں اُس نے اپنے سہولت کاروں سے یہ کام کرنے کے بعد مشورہ بھی مانگا ۔ سارے وائس نوٹ سنائے گئے ہیں کہ’’ اب کیا کرنا ہے‘‘ ۔ ایک سہولت کار نے اُس کو بتایا کہ ’’ہیک ہونے کا کہو اور موبائل کو ختم کردو یہ پولیس کو نہیں ملنا چاہیے‘‘۔شاہنواز کی گستاخیوں کا ایک اور ثبوت خود اس کے املا کی غلطی سے بھی ہوا۔ دو الفاظ کے املا کی جو غلطی شاہنواز نے اپنی صفائی میں لکھی وہی الفاظ کی غلطی گستاخانہ پوسٹ میں بھی تھی ۔ ان میں حصاب۔ کو ص سے لکھنا نمایاں طور پر پکڑی جا سکتی ہے۔اسی طرح بائےByeکی غلطی یعنی By لکھنا ۔ یہ کام دونوں نے کیا ہے۔اب کیا ہیکر اور شاہ نواز کا املا بھی ایک جیسا غلط تھا؟لیکن سردار شاہ نے اسمبلی فلور پر کہا تھا کہ یہ ’’شاہ نواز ٹاپ ٹین اسٹوڈنٹس میں سے تھا‘‘۔یہی نہیں ،ملزم کے سسر اور اس کی ماں نے غلط صحبت اور شیطان کے راستے پر چلنے کا بیان دیاجو بہت سارے راز کھولتا ہے۔بہرحال فیصلہ ملکی عدالت میں ہی ہوتو بہتر ہے ۔ سندھ میں سیکولر، لبرل، ملحدین نے امن کے نام پر جو آگ لگائی ہے اُس سے اُن کے گھر ہی جلیں گے۔
اصل انتہا پسندی یہ گستاخی کرنا ہے۔ اس میں نہ کسی مذہب کا احترام ہے، نہ کسی مقدس شخصیت کا نہ ہی مذہبی جذبات کا احترام ہے۔ ایسا شخص معاشرے میں فساد پھیلانے والا ہے ، امن و امان کو تباہ کرنے والا ہے۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو اور خاص طور پر اسلامی جماعتوں اور علما کرام کو چاہیے کہ ایسے واقعات کو وائرل کرنے کے بجائے تھانے جا کر قانونی کارروائی کریں ۔دوسری ذمہ داری قانون کی ہے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر تحقیقات کرے اور عدالت فیصلہ کرے ۔اگر ہر طبقے نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو ملک میں مزید افرا تفری اور انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے جو نہ تو ملک کے لیے اچھا ہوگا نہ یہاں رہنے والے کسی بھی طبقے کے لیے بہتر ہوگا۔