اسرائیل پر حماس کے حملوں اور اس کے جواب میں غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ فوجی کارروائیوں کے آغاز کو آج ایک سال مکمل ہوگیا۔ اس موقع پر دنیا بھر میں شدید احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ غزہ اور لبنان پر حملے روکے اور امن کی راہ ہموار کرے۔ دوسری طرف اسرائیل میں ہزاروں افراد نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے گفت و شنید کے مطالبے پر زور دینے کے لیے پھر مظاہرے کیے ہیں۔
اس موقع پر فریقین ایک دوسرے کو نشانہ بھی بنارہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لبنانی سرحد پر ایک اسرائیلی فوج مارٹر گولا لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ اسرائیل نے بھی جوابی کارروائیوں میں جنوبی لبنان کے کئی مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
حزب اللہ اور حماس نے لڑائی کا ایک سال مکمل ہونے پر اسرائیل کو سبق سکھانے کی غرض سے اسرائیل کے اندر کئی علاقوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور درجنوں میزائل اور راکٹ داغے بھی گئے ہیں۔ اسرائیل کے طول و عرض میں ہائی الرٹ ہے۔
ایران نے اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائیوں کے خدشے کے پیشِ نظر گزشتہ شب نو بجے سے آج صبح نو بجے تک اپنی فضائی حدود بند کردی تھیں۔ خطرہ نہ ٹلنے کے باوجود ایرانی قیادت نے فضائی حدود کھول دی ہیں تاہم کسی بھی اسرائیلی حملے کا سامنا کرنے کی بھرپور تیاری کی جاچکی ہے۔
جنوبی لبنان اور بیروت پر اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی بھی ہو رہی ہے۔ جنوبی لبنان میں مجموعی طور پر 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہیں۔ کم و بیش ساٹھ ہزار افراد نے جنوبی لبنان سے نکل کر شام میں پناہ لی ہوئی ہے۔ لبنان میں اسکول جانے والے ساڑھے بارہ لاکھ بچوں میں سے 40 فیصد بے گھر ہوچکے ہیں۔
فرانس، روس، یورپی یونین اور جرمنی کے بعد اب امریکا نے بھی لبنان میں بے گھر ہوجانے والوں کی فوری امداد یقینی بنانے کے لیے 15 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ لبنان کے متعدد علاقوں میں میڈیکل سپلائیز کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ بیشتر اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ اور جنوبی لبنان دونوں پر بمباری اور گولا باری جاری رکھی ہے۔ زمینی کارروائیاں بھی بڑھادی گئی ہیں۔ جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں میں حزب اللہ کے ارکان اسرائیل کی بری فوج کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔
اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے عوام کی طرف سے اب بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ جو اسرائیلی شہری اس وقت حماس کی قید میں ہیں اُن کی رہائی کے لیے اُن کے رشتہ دار اور دیگر شہری بھرپور احتجاج کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اِن یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ ٹرینڈنگ کر رہا ہے۔