پی آئی اے کی نجکاری، ممکنہ خریداروں کی ہچکچاہٹ

23

ٹی وی کے مختلف چینلز اور اخبارات میں یہ خبریں گشت کررہی ہیں کہ PIA کو خریدنے میں دلچسپی رکھنے والی 6 پیشگی بولی لگانے والی جماعتوں نے حکومت سے موجودہ ملازمین کی سروس اور پنشن کے حوالے سے وضاحت طلب کی ہے اور 18 طیاروں کی ایک سال کے لیے وارنٹی اور مقدمات سے تحفظ کی درخواست کی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت، وزیر نجکاری، نجکاری کمیشن، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں اور ممکنہ خریداروں کو چند اہم معاملات پر توجہ دینی ضروری ہے۔ جہاں تک وارنٹی کا سوال ہے اس کا جواب انجینئرز و ماہرین دے سکتے ہیں۔ مقدمات سے تحفظ تو انصاف اور حقوق کو تحفظ فراہم کرنے سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ملازمین اور پنشنرز و بیوگان کے حقوق سے روگردانی اور حق تلفی ہوگی تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے سے کسی کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ تاحال ملازمین اور PIA سے وابستہ پنشنروں کو استعماد میں نہیں لیا جارہا ہے۔ ہر طرف ہر گھر میں بے یقینی، بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔کہتے ہیں ’’ملازمین کو نہیں لیں گے‘‘ یا یہ کہ ’’ملازمین کو نکالو‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملازمین کو نکالا تو جہاز اڑانے کا بندوبست کون کرے گا، مسافروں، کارگو کی دیکھ بھال کیسے ہوگی، کیا کوئی کاروبار انسانوں کے بغیر ممکن ہے؟

دوسرے شرائط ملازمین سے انحراف کیسے ہوسکتا ہے۔
تجربہ کار اور دیانتدار افرادی قوت تو ادارے کے سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے، جب معاملہ پنشن، میڈیکل اور پیسج (Passage) کا آتا ہے تو اس طرف سے سرد مہری دکھائی جاتی ہے۔ حالانکہ مذکورہ سہولتوں کی فراہمی کی گارنٹی شرائط ملازمت میں شامل ہے۔ مزید یہ کہ پی آئی اے سی ایل (کنورژن) ایکٹ 2016ء میں ان کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ PIA میں پنشن ملک بھر میں سب سے کم ترین ہے جو 2 ہزار روپے ماہانہ ہے (کم از کم) جبکہ حکومتی اداروں میں کم از کم پنشن 10 اور 12 ہزار روپے ماہانہ ہے، جبکہ حکومتی بڑے لوگوں کے لیے لاکھوں روپے پنشن بہت سی مراعات کے ساتھ ہے۔ چنانچہ PIA پنشنرز کا متفقہ مطالبہ ہے کہ کم از کم پنشن کو 15 ہزار روپے ماہانہ پر لا کر اسے جاری رکھا جائے، میڈیکل سروسز اور پیسج (سفری سہولت) جاری رکھی جائیں اور کمیوٹ شدہ پنشن بحال کی جائے۔ جہاں تک گروپ
انشورنس کا معاملہ ہے وہ بھی حل طلب ہے۔ PIA کے پنشن فنڈ ٹرسٹ میں پیارے (پنشنرز) کو مناسب نمائندگی دی جائے۔ دسمبر 2022ء کی PIA کی سالانہ رپورٹ میں پنشن فنڈ ٹرسٹ میں 29.4 ارب روپے PIA کی لائیبلٹی (Liability) کے طور پر دکھائی گئی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ SECP کے 3 مئی 2024ء کو جاری کردہ آرڈر میں ’’PIA پنشنرز کے حقوق و مراعات کو برقرار رکھنے کی PIA کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے‘‘۔

ان تمام امور کو فروخت کنندگان، خریدار حضرات/ کمپنیوں اور مقتدر حلقوں کو پیش نظر رکھ کر انصاف پر مبنی جلد مناسب فیصلے کرنے ہوں گے۔ پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے حق تلفی سے گریز کیا جانا ضروری ہے۔ اسٹیک ہولڈرز (ملازمین و پنشنرز اور ان کی تنظیموں) کو اعتماد میں لے کر معاملات بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔
ایک عوامی خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستانی کمپنیاں/ بڈرز/ خریدار PIA میں سیاسی مداخلت کو روک نہ سکیں گے مگر اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے/ کمپنی کے لیے آسانیاں اور مراعات غیر ضروریہ حاصل کریں گے۔ حکومتی ذمہ داران بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ نتیجتاً حکومت پاکستان اور عوام الناس کو فروخت کردہ قیمت کا بہت کم حصہ اقساط کی صورت میں مل پائے گا۔ اور پاکستان، پی آئی اے کے اربوں کھربوں کے اثاثے ضائع ہوجائیں گے۔ خدا نہ کرے۔