حالیہ دنوں میں جاپان کی فضائی حدود میں روسی اور چینی طیاروں کی پروازوں اور چین کے قریب کواڈ ممالک (امریکا، بھارت، جاپان، اور آسٹریلیا) کی فوجی مشقوں نے ایشیائی خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا دی ہے۔ اس پس منظر میں چین کی جانب سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کا تجربہ خطے کے لیے ایک نیا خطرہ بن کر ابھرا ہے، جس نے نہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی بے چینی پیدا کر دی ہے۔ یہ حالات بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں جنگ کا اندیشہ حقیقی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ انسانیت کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔ ایسی صورتحال میں امن کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے، اور موجودہ تنازعات کے حل کے لیے ایسی تدابیر اپنانی ہوں گی جو مستقبل میں کسی عالمی یا علاقائی جنگ کو روک سکیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں نے نہ صرف لاکھوں جانیں لی ہیں بلکہ قوموں کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے اور دنیا کو کئی دہائیوں تک غربت، بیروزگاری اور سماجی بے چینی میں مبتلا رکھا ہے۔ جنگ کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہوتے ہیں، چاہے وہ عالمی جنگیں ہوں یا علاقائی تنازعات۔ اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ پر مسلط جنگ، فلسطین اور لبنان کی تباہی، اور یوکرین کے حوالے سے روس کی جارحیت آج کے دور کی واضح مثالیں ہیں۔ ان تنازعات نے نہ صرف ان ممالک بلکہ عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
چین کی حالیہ میزائل تجربہ ایک سیاسی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد اپنے دفاعی عزم کو ظاہر کرنا اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو متنبہ کرنا ہے۔ تاہم، ایسے اقدامات ایک خطرناک کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں جہاں غلط فہمیاں یا غلط اندازے جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا ایک چھوٹا سا شعلہ پورے خطے کو جلا کر خاک کر سکتا ہے، اور اس سے بچنا ہی سب کے حق میں بہتر ہے۔
روس کو یوکرین میں جاری جنگ میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، کیونکہ اس جنگ کے نتائج پورے یورپ کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح شمالی کوریا کی جانب سے مستقل میزائل ٹیسٹ ایک اور خطرناک مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ لیکن ان میزائل تجربات کا روٹ کاز سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک ردعمل ہو سکتا ہے جس کی جڑیں عالمی سطح پر غیر منصفانہ پالیسیوں میں پنہاں ہیں۔ شمالی کوریا کو اپنے تحفظات کے اظہار کے لیے میزائل تجربات کے بجائے مذاکرات اور بات چیت کا راستہ اپنانا ہوگا، اور بین الاقوامی برادری کو بھی اسے شامل کرکے ایک قابل عمل حل پیش کرنا ہوگا۔
جنگوں کے پیچھے اسلحہ سازی کی صنعت کی بڑھتی ہوئی طاقت بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے اسلحے کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ان تنازعات کو ہوا دیتی ہیں، تاکہ ان کے ہتھیاروں کی مانگ برقرار رہے۔ یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ جنگوں کا اصل فائدہ ان طاقتوں کو ہوتا ہے جو ہتھیار بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کرتی ہیں جبکہ عام لوگ بے گھر اور تباہ ہو جاتے ہیں۔
چین اور جاپان جیسے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تنازعات کو جنگ کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے حل کریں۔ جاپان کی امن پسندی قابل تعریف ہے، اور اسے دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کو یاد رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں نرمی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک جیسے بھارت اور پاکستان کو بھی اپنے دیرینہ تنازعات کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا، کیونکہ جنگ کے نتائج کسی کے حق میں بہتر نہیں ہوں گے۔ اسی طرح، جنوبی بحیرہ چین کے تنازعات کو بھی پرامن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پورے ایشیائی خطے میں استحکام قائم ہو سکے۔
روس اور امریکا، جو دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں، کو اپنے مفادات کی جنگ کو دیگر خطوں میں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کی طاقت کی کشمکش کے باعث چھوٹے ممالک براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ان بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ عالمی امن اور سلامتی کو اولین ترجیح دیں اور اپنے اختلافات کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کریں۔
ہتھیاروں کی دوڑ اور فوجی طاقت کے مظاہرے صرف خوف اور عدم اعتماد کو جنم دیتے ہیں، جو عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ ساتھ امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کو اسلحے کے ذخیرے اور ہتھیاروں کے تجربات کے بجائے جوہری عدم پھیلاؤ اور اسلحے کے کنٹرول کے معاہدوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ یہ معاہدے نہ صرف عالمی امن کی ضمانت بن سکتے ہیں بلکہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔
خطے میں اقتصادی تعاون اور مشترکہ ترقی کے منصوبے امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چین، جاپان، بھارت اور پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک کو باہمی تجارتی تعاون کو فروغ دینا چاہیے تاکہ خطے میں خوشحالی اور ترقی کی راہ ہموار ہو۔ اقتصادی استحکام سے نہ صرف غربت اور بیروزگاری میں کمی آئے گی بلکہ ملکوں کے درمیان اعتماد سازی بھی ہوگی، جو کسی بھی جنگی کشیدگی کو کم کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔
جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر خطوں میں جنگی حالات کو مزید بڑھانے کے بجائے بات چیت اور مفاہمت کو فروغ دینا ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو ان ممالک کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ اپنی دشمنیوں کو پس پشت ڈال کر پرامن حل کی طرف بڑھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو خطوں میں مزید کشیدگی کا باعث بنیں۔
2050 کی دنیا کا خواب تب ہی پورا ہو سکتا ہے جب آج کے فیصلے امن اور مفاہمت کی بنیاد پر کیے جائیں۔ بین الاقوامی برادری کو جنگ کے خوف سے نکل کر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ اگر ایک ایسی دنیا چاہیے جہاں ترقی، خوشحالی اور امن ہو، تو آج سے ہی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ دنیا کو جنگوں کی نہیں، امن کی ضرورت ہے۔