میں: آج تم پھر اداس لگ رہے ہو۔
وہ: اداس نہیں ہوں میر ؔ کے اس شعر پر غور کررہا ہوں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میں: مجھے تو اس شعر سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ انسان اس دنیا وکائنات کی سب سے بلند اور ارفع تخلیق ہے۔
وہ: تم نے درست کہا، یعنی مٹی کا یہ پتلا اصل میں فلک کی مسلسل جستجو کا شاہکار ہے۔ اور ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ انسان کو خاک کے پردے سے باہر آنے کے لیے، یعنی دنیا میں خود کو منوانے یا ثابت کرنے کے لیے خدا کی طرف سے دی گئی اپنی صلاحیتوں کو اس کے پورے اظہار کے ساتھ بروئے کارلاتے ہوئے، مسلسل ریاضت اور جدوجہد کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
میں: لیکن مجھے تمہاری اس بات پر اعتراض ہے کہ میری صلاحیتیں تو میری اپنی ہیں، جنہیں میں نے اپنی محنت اور جستجو سے پروان چڑھایا ہے، خدا کا اس میں کیا لینا دینا؟
وہ: مگر ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے تمہارے وجود میں پیدائشی طور پر موجود ذہنی اور جسمانی قوتوں کی تشکیل میں تمہارا کتنا حصہ ہے، یا اس بات کو ایسے سمجھ لو کہ تمہاری اپنی تخلیق میں تمہارا کیا کردار ہے؟
میں: نہیں اس میں تو میرا کوئی عمل دخل نہیں پر میرے والدین کا ضرور ہے۔
وہ: میرے دوست تخلیق کے اس عمل میں ہمارے والدین کا کردار بس ایک ایجنٹ یا کارندے کا ہوتا ہے۔ ہمیں بنانے اور زندگی دینے کا تمام تر اختیار بس خدائے بزرگ و برتر کی ذات کے پاس ہے۔ مگر افسوس کہ انسان اپنے وجود کو ایک طبعی عمل کا نتیجہ سمجھ کر اپنے بنانے والے کو یکسر فراموش کر بیٹھا۔ موجودہ دور کے اسکالرز اور سائنس دان اس بات پر سو فی صد اتفاق رکھتے ہیں کہ تخلیق کو خالق کے بغیر دیکھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ مگر صرف اپنی ایجاد کردہ اشیاء اور اپنے وضع کردہ قوانین کی حد تک اور آج کا انسان اس حقیقت سے مسلسل انکاری ہے کہ وہ خدا کی تخلیق ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ آج کا انسان خدا فراموش ہوگیا ہے؟
وہ: اور اسی خدا فراموشی نے اسے خود فراموشی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں سے اسے آگے بڑھنے کا رستہ سُجھائی دے رہا ہے نہ واپس پلٹنے کی کوئی راہ۔
میں: لیکن میرے خیال سے ایسا مکمل طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ اسلام اورکچھ دیگر مذاہب کے اربوں، کروڑوں پیروکار انسان کو خدا کی تخلیق مانتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
وہ: یہی تو آج کے انسان کا سب سے بڑا لمیہ ہے۔ بے سمت تعلیم کے نتیجے میں جنم لینے والے جدید ذہن کی بے راہ روی سے آج ایسا مادہ پرست سماج پروان چڑھ چکا ہے جہاں مذہبی اور غیر مذہبی، دونوں ہی ذہنوں میں مقصد ِ زندگی مادی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل بن کر رہ گیا ہے۔
میں: لیکن ضروریات اور خواہشات کو چھوڑا بھی تو نہیں جاسکتا، ان کا پورا ہونا بھی تو ایک فطری تقاضا ہے۔
وہ: پر یہ کہاں کی دانائی ہے کہ ان کو پورا کرنے کے لیے اپنے اصل معبود کو چھوڑ کر خود کو نفس کے بے لگام گھوڑے کے حوالے کردیا جائے؟
میں: تمہارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنالیا ہے؟
وہ: بالکل ایسا ہی ہے، کیوں کہ انسان کے لیے خدا کا ہونا لازم وملزوم ہے، اب یہ اس کی کم عقلی ہے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کے بجائے اپنی خواہش نفس کا غلام بن کر اسے اپنا خدا بنالے۔ دونوں ہی صورتوں میں اسے بندگی کا فریضہ ہی سرانجام دینا ہے۔ یعنی نفس کا بندہ بن کر رہے یا خدا کا۔ موجودہ دور کا انسان اپنی زندگی، اپنے وجود کے بارے میں سوچنے پر کسی صورت آمادہ نہیں ہے۔ اس کی ساری محنت، پورا وقت اور تمام صلاحیتیں صرف اور صرف اسی ایک محور کے گرد گھوم رہی ہیں کہ اس کی نفسانی خواہشات کیسے مکمل ہوں۔ اس مسلسل بے راہ روی اور تگ و دو کا منطقی انجام یہ ہوا کہ انسان نے زندگی کے ہر شعبے سے خدا کو نکال باہر کیا۔
میں: یعنی تخلیق کو خالق کے بغیر دیکھنے کا عمل گزشتہ کئی صدیوں سے جاری وساری ہے، مجھے اس موقع پر مشہور مسلم فلسفی ابن عربی کا یہ قول شدت سے یاد آرہا ہے کہ ’’انسان خدا کے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے جبکہ حقیقت میں اسے اپنے ہونے پر حیران ہونا چاہیے تھا‘‘۔
وہ: سبحان اللہ تم نے تو آج کی گفتگو کو، کوزے میں بند کردیا، اصل میں یہی وہ خود فراموشی ہے جسے انسان نے اپنی نفسانی خواہشات کے گورکھ دھندے میں پھنس کر صدیوں سے اختیار کر رکھا ہے، اور اپنی صلاحیتوں کو فقط اس عارضی دنیا کی نمود ونمائش، آسائشوں اور خواہشات کی تکمیل تک محدود کردیا ہے۔ بقول شاعرؔ
خود فراموشی ہے صدیوں پہ محیط
خواہشوں سے لدے سامان کے بیچ