سات اکتوبر کا پیغام، مزاحمت

424

آج سات اکتوبر ہے آج سے ٹھیک ایک برس قبل بے سروسامان حماس مجاہدین نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا غرور خاک میں ملادیا تھا ،اسرائیل کا دعوی تھا کہ اس کی جانب آنے والا ایک ذرہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا اسے راستے ہی میں تباہ کردیا جائے گا۔لیکن حماس نے اللہ کی نصرت اور تائید سے نہایت محفوظ حکمت عملی اختیار کی اور سات اکتوبر کو حماس کے جانبازوں نے اسرائیل میں گھس کر نہ صرف اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا بلکہ درجنوں کو یرغمال بنالیا۔حماس کی اس کارروائی کے بعد دنیا کی سب سے مضبوط فوجی قوت ہونے کی دعویدار ریاست پر جنون سوار ہوگیا اس نے سویلین دیکھے نہ بچے نہ اسکول نہ اسپتال ، یتیم خانے اور نہ بے گھر لوگوں کی پناہ گاہیں کچھ نہیں چھوڑا اور ہر جگہ جھوٹا دعوی کیا کہ یہاں حماس کی قیادت چھپی ہوئی تھی ،اپنے یرغمالیوں تک کو بمباری سے ہلاک کر دیا۔جو اسرائیلی یرغمالی رہا ہوکر آئے انہوں نے حماس کی مہمان نوازی اور اخلاق کی گواہی دی اور انسانیت کے دشمنوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا اور بتایا کہ مجاہدین نے اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہمارے ساتھ بہترین سلوک کیا ،اور موجودہ جنگی اصولوں سے تو زیادہ خیال رکھا، اسرائیل کی جانب سے تمام بین الاقوامی قوانین انسانی حقوق اقوام متحدہ کی قراردادوں، سب کو پامال کیا گیا اس ساری شیطنت میں امریکا اسرائیل کی کھلی سرپرستی کرتا رہا دوسرے مغربی ممالک بھی اس کی پشتیبانی کرتے رہے۔لیکن سب سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک رویہ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا رہا،اسرائیل کے ارد گرد طاقتور اسلامی افواج والے ممالک موجود ہیں، کوئی پینتیس چالیس ممالک کی فوج اورایٹمی قوت اور جدید میزائلوں سے لیس ممالک موجود ہیں لیکن ان کی مالی اور فوجی قوت قبلہ اول کیلیے نہیں ہے ، فلسطینیوں کیلیے نہیں ہے ،لبنانی مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ، یہ فوجی قوت اپنے اپنے ملکوں میں حکومتوں کے مخالفین کو کچلنے میں خرچ ہوتی ہے ، پاکستان میں سیاسی و مذہبی تمام ہی جماعتیں فلسطین کے مسئلے پر ایک ہیں اور جماعت اسلامی پاکستان نے پورے ملک میں ہفتہ یکجہتی فلسطین و لبنان منانے کا اعلان کیا اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک اسٹیج پر جمع کیا ، دیگر دینی جماعتوں نے بھی سات اکتوبر کو بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے،حماس کے طوفان الاقصی کے نتائج اس قدر وسیع ہیں کہ ان کا ادراک کسی تھنک ٹینک کسی تجزیہ نگار کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہر آنے والے دن اس کا نیا اثر نظر آتا ہے پوری دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی احتجاج کررہا ہے۔ کئی حکومتیں بدل گئیں کئی ملکوں میں سیاست کا محور بدل گیا ہے ،لیکن پاکستان میں سیاست کا زوال اس قدر ہوا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر توجہ کے بجائے ملک کی اسٹیبلشمنٹ ایک سیاسی ڈرامے کو طویل دورانیے کے ڈرامے کی طرح کھینچے جارہی ہے ،آئینی ترامیم کی خاطر ہر قانون اور آئین کی ہر شق کا مذاق اڑایا جارہا ہے ، مقدمات بنائے جارہے ہیں ضمانتیں ہورہی ہیں سماعتیں ہورہی ہیں اور کوئی معاملہ منطقی انجام کو نہیں پہنچ رہا یا نہیں پہنچایا جارہا ہے۔ عدالت، پارلیمنٹ فوج بیورو کریسی سب نے اپنا مذاق بنوایا ہواہے ، چیف جسٹس سب سے زیادہ نشانیپر ہیں اور فوج تو سب کے نشانے پررہتی ہی ہے۔اتنی تاخیر کا سبب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ قوم ان ہی سیاسی جھگڑوں میں الجھی رہے اسے امت مسلمہ کے مسائل پر سوچنے کا موقع ہی نہ ملے ،اور اس خیال میں واقعی حقیقت کا عنصر زیادہ نظر آرہا ہے ، ہماری اسٹیبلشمنٹ امت مسلمہ کے مسائل کے مواقع پر ایسے ہی ڈراموں میں قوم کو الجھاتی ہے۔یا کرکٹ میچ کراتی ہے، لیکن امت مسلمہ کے مسائل پر بات نہیں کی جاتی ، امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں شریک کیا اور سب کو اپنے غزہ ملین مارچ میں شریک کروایا اس طرح جماعت اسلامی کا غزہ ملین مارچ پورے ملک کی آواز بنا۔لیکن کیا اسرائیلی چیرہ دستیوں کا جواب یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں جلسے جلوس ریلیاں کریں اور مذمت تک بات رک جائے ،اب اسرائیل کی مذمت سے آگے بڑھ کر اس کی مرمت کرنے کا وقت آگیا ہے ،حماس نے امت مسلمہ کو پیغام دیا ہے کہ زندہ رہنا ہے اور عزت سے زندہ رہنا ہے تو مزاحمت کرو کیونکہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے، اورسات اکتوبر کا بھی یہی پیغام ہے کہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے۔ ریاستوں کے لیے مزاحمت کے بجائے پیش قدمی کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے،اگر اسلامی حکومتیں جہاد کا اعلان نہیں کریں گی تو یہی جہاد پھر پرائیویٹ سیکٹر میں ہوگا اور پرائیویٹ جہاد کے مسائل کو پاکستانی فوج سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔کشمیر کا جہاد، اور افغانستان کا جہاد ، یہ دہشت گردی کے نام پر آج تک ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے ،کشمیر کے پرائیویٹ جہاد کی سرپرستی بھی کی گئی اور افغانستان والے کی بھی، بڑی مشکل سے جنرل پرویز مشرف نے کشمیر سے جان چھڑائی ،اور افغانستان کا پرائیویٹ جہاد ٹی ٹی پی کی شکل میں اب بھی گلے پڑا ہوا ہے۔اب حکومت فیصلہ کرے کہ اپنی اصل ذمہ داری کب پوری کرے گی۔