جماعت اسلامی کے دھرنے کے نتیجے میں حکومت سے معاہدہ ہوا تھاجس پر عمل کی مدت تو گزر چکی لیکن جماعت اسلامی کے مسلسل دباوکے نتیجے میں اچھی خبریں سامنے آرہی ہیں ،مقامی انگریزی اخبار کے مطابق 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیز کے تحت وجود میں آنے والے 5آئی پی پیز نے ایک متوقع اقدام کے طور پرپاور پرچیز ایگریمنٹ کے معاہدے ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے چند تفصیلات طے کرنا باقی ہیں اور جو نہی انہیں حتمی شکل دے دی جائے گی یہ آئی پی پیز اپنے معاہدے ختم کرنے کی دستاویزات پر دستخط کردینگی، پاور سیکٹر کی ٹاسک فورس سے متعلق ایک اعلیٰ عہدیدار نے اخبار کو بتایا ہے کہ ان آئی پی پیز کو مستقبل میں ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی لیکن ان کے سابقہ واجبات ادا کیے جائیں گے۔ تاہم انہیں صرف بجلی کی قیمت ادا کی جائے گی اور اس پر سود ادا نہیں کیاجائیگا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ماضی کی کیپسٹی پیمنٹس جو حکومت پرآئی پی پیز کی جانب سے واجب الادا ہیں وہ 80سے 100ارب روپے ہیں۔ ان واجبات کے حجم پر بھی مذاکرات جاری ہیں۔ یہ آئی پی پیز بوٹ پروگرام تعمیر کرو، چلائو، ملکیت میں رکھو اور منتقل کردو کی بنیاد پر کام کر رہی تھیں وہ حکومت کے حوالے ہوجائیں گی تاہم جو آئی پی پیز بوٹ معاہدے کے تحت وجود میں نہیں آئیں وہ اپنے مالکان کے پاس ہی رہیں گی اس طرح کیپسٹی چارجز کی مد میں 300 ارب روپے تک کی بچت ہوسکے گی جو کہ آئندہ 3 سے 10 سال کے اندر انہیں ادا کی جانی تھی۔ اور اس سے صارفین کو 0.60 پیسے فی یونٹ ریلیف ملے گا جو کہ ایک سال میں 60 ارب روپے بنتا ہے۔علاوہ ازیں کئی آئی پی پیز زیادہ بھی وصول کررہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ اگر دیگر 17 آئی پی پیز جن کی نشاندہی ہوچکی ہے ان سے بھی ایسا ہی معاملہ طے ہوجائے تو صارفین کو دس روپئے یونٹ تک براہ راست فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جماعت اسلامی کو بھی اس معاملے میں اعتماد میں لے ، جس نے اسے بتایا تھا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر مذاکرات اور ردو بدل ہوسکتا ہے۔اس کے وزیر تو کہہ رہے تھے کہ آئی پی پیز سے معاہدے پر بات ہی نہیں ہوسکتی۔