فرانس میں خزانہ تلاش کا مشہور مقابلہ ‘سنہری اُلو’ 31 سال بعد اختتام پذیر

142

فرانس کے مشہور خزانہ تلاش مقابلے ‘سنہری اُلو’ کا 31 سالہ سفر بالآخر اختتام پذیر ہوگیا ہے، جس میں سوائے ایک شخص کے ہزاروں خزانہ شائقین پر مایوسی چھائی ہوئی ہے ۔

اس ہفتے کے آغاز میں، ‘آن دی ٹریل آف دی گولڈن آول’ مقابلے کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اعلان کیا کہ وہ ٹوکن، جو گرینڈ انعام جیتنے کے لیے درکار تھا، دریافت کر لیا گیا ہے۔ یہ مقابلہ 1993 میں مصنف ریجس ہاؤزر اور آرٹسٹ مشیل بیکر کی تحریر کردہ پہیلیوں کی کتاب کی بنیاد پر تھا، جس میں حصہ لینے والوں کو 11 پہیلیاں حل کرنی تھیں اور ایک چھپی ہوئی بارہویں پہیلی کو بھی جانچنا تھا تاکہ ٹوکن کی درست جگہ معلوم ہو سکے۔

ایک ڈسکورڈ چینل پر ایک پیغام میں ان لوگوں کو کھدائی کرنے سے منع کیا گیا جو سنہری الو کی تلاش میں کھدائی کر رہے تھے کیونکہ گزشتہ رات سنہری اُلو کا نشان دریافت کر لیا گیا ہے۔ اس پیغام کے بعد بہت سے لوگوں پر اداسی چھا گئی جو اس کھیل میں حصہ لیے ہوئے تھے کیونکہ اب مزید کھدائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔

پیغام میں مزید کہا گیا کہ جو افراد دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے ٹوکن دریافت کیا ہے، ان کے دیے گئے حل کی تصدیق کی جا رہی ہے۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق، اس کتاب نے 2 لاکھ سے زائد کھلاڑیوں کو اپنی طرف راغب کیا، جنہیں “اولرز” کہا جاتا ہے۔ بیکر نے ایک یوٹیوب دستاویزی فلم میں انکشاف کیا کہ قیمتی انعام، جو تین کلو گرام سونے اور سات کلو گرام چاندی سے تیار کردہ اُلو ہے، انہوں نے اس کی خود تخلیق اور مالی معاونت فراہم کی ہے ۔

ہاؤزر، جو ان پہیلیوں کے ذہنی معمار تھے اور 2009 میں وفات پا گئے، نے ابتدائی طور پر اپنے قلمی نام میکس والنٹائن کا استعمال کیا تاکہ لوگ خزانہ تلاش کرنے والے ان کا پیچھا نہ کریں۔ انہوں نے اور بیکر نے اُلو کی نقل کو دفن کیا، جبکہ اصل قیمتی اُلو کو محفوظ مقام پر رکھا گیا۔

مداحوں کے مطابق، اس خزانے کی مالیت تقریباً 165,000 ڈالرز ہے۔ خزانہ حاصل کرنے کے لیے جیتنے والے کو اُلو کی نقل کے ساتھ کتاب کی تمام پہیلیوں کے جوابات بھی پیش کرنا ہوں گے۔

فرانسیسی میڈیا نے بھی اس تین دہائیوں پر محیط مقابلے کے اختتام کو خاص طور پر پیش کیا، جو دنیا کے طویل ترین غیر حل شدہ خزانہ تلاش مقابلوں میں سے ایک ہے۔ ایک شریک نے فرانس انٹر ریڈیو پر کہا کہ میں مایوس ہوں کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ میں قریب ہوں، لیکن ایک لحاظ سے خوش بھی ہوں کہ یہ مقابلہ ختم ہو رہا ہے۔

30 سالہ نوجوان نے بتایا کہ اس نے پچھلے دو سالوں سے ہر ویک اینڈ پر اُلو کی تلاش کی، اور بعض اوقات رات کے درمیان کھدائی بھی کی۔ یہ خزانہ تلاش کرنے کا سفر شائقین کے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ رہا، جس نے انہیں کئی یادیں فراہم کیں۔