کیپٹو پاور پلانٹس 600 سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں

223

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے حکومت کی جانب سے کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو 2025سے گیس کی فراہمی معطل کرنے کے فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت لیا گیا یہ فیصلہ درمیانے اور بڑی صنعتوں کے لیے بندش کا باعث بنے گا نیز ان پلانٹس میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی جسے کوئی بھی صنعت برداشت نہیں کر سکتی جبکہ صنعتیں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی غیر مستحکم بجلی کی فراہمی پر انحصار نہیں کر سکتیں۔کیپٹو پاور پلانٹس کو بند کرنا بلاشبہ غلط اقدام ہے لہٰذا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور فوری طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرے تاکہ کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی معطل کرنے کی بالخصوص یہ شرط واپس لی جا سکے بصورت دیگر صنعتوں کی بڑے پیمانے پر بندش سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

حکومت نے پہلے تو صنعتکار برادری کو کیپٹو پاور پلانٹس لگانے کی ترغیب دی اور ان پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے بلاتعطل گیس کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی کیونکہ ُاس وقت ملک بجلی کے شدید بحران سے گزر رہا تھا۔اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے کیپٹو پاور پلانٹس میں نمایاں سرمایہ کاری ہوئی جو کہ آئی پی پیز سے تقریباً 64 فیصد زیادہ کارآمد ہیں کیونکہ کمبائنڈ سائیکل کیپٹیو پاور پلانٹس سے نکلنے والی گرمائش کو ہیٹ ریکوری بوائلرز میں استعمال کرتے ہوئے بھاپ پید کی جاتی ہے جبکہ ان بوائلرز کے اخراج کو بروئے کار لاتے ہوئے گرم پانی حاصل کیا جاتا ہے۔

صنعتکار گیس کی معطلی کی وجہ سے کیپٹو پاور پلانٹ کی بندش کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے گا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صنعتوں کی ایک بڑی تعداد صرف کے الیکٹرک کی مکمل طور پر ناقابل اعتبار بجلی کی فراہمی پر انحصار نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے اکثر کئی قسم کی حساس مشینری کے آپریشن خلل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چند سیکنڈ کے بجلی کے معمولی اتار چڑھاؤ گھنٹوں تک پورے پیداواری عمل کو روک دیتا ہے۔انہوں نے پلاننگ کمیشن پر کڑی تنقید کی جس نے پہلے صنعتکاروں کو سی پی پیز قائم کرنے کی ترغیب دی اور پھر ان سب کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

کے الیکٹرک سمیت بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں پہلے ہی لوڈ شیڈنگ کر رہی ہیں جبکہ فرسودہ بجلی تقسیم نیٹ ورک کی وجہ سے والٹیج میں اتار چڑھائو کا بھی اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں کے الیکٹرک یا کوئی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنی صنعتوں کو بلاتعطل بجلی کیسے فراہم کر سکے گی جبکہ کیپٹیو پاور پلانٹس والی کئی صنعتیں دور دراز علاقوں میں واقع ہیں جہاں کے ای کے گرڈ اسٹیشن موجود ہی نہیں۔اگر ایسی تمام صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی بند کر دی جاتی ہے تو ان سب کے پاس اپنے یونٹ فوری طور پر بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔کیپٹو پاور پلانٹس اس وقت 600 سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو ہمیں خدشہ ہے کہ کے الیکٹرک اپنی محدود پیداوار کی وجہ سے فراہم نہیں کر سکے گی۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت انہیں سی پی پیز کی جگہ مفت بجلی کنکشن دینے کا ارادہ رکھتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ سی پی پیز کو 80:20 کے تناسب سے 3,000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے مقامی گیس جبکہ 3,788 روپے فی ایم ایم بی ٹی یوکے ریٹ پر آر ایل این جی فراہم کی جا رہی ہے لیکن اگر کیپٹو پاور پلانٹس بند ہو جاتے ہیں تو صنعتی گیس 1,500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یوکے نرخ پر یا تو گھریلو شعبے کو دے دی جائے گی یا آئی پی پیز کو جو مزید پریشانی کا سبب بنے گا کیونکہ حکومت کو لائن لاسز میں اضافے کے علاوہ اضافی سبسڈی بھی برداشت کرنی پڑے گی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ صنعتوں کو 3,750 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے صنعتوں کو آر ایل این جی کی فراہمی سے وفاقی حکومت کو صفر نقصان اٹھانا پڑے گا جو گھریلو اور دیگر شعبوں کو گیس فراہم کر کے برداشت کرنا پڑتا ہے ۔اگرچہ گھریلو سیکٹر میں یو ایف جی میں کچھ کمی آئی ہے لیکن اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ گھریلو سیکٹر کو محدود گیس فراہم کی جارہی ہے ۔ اگر گھریلو صارفین کو چوبیس گھنٹے گیس فراہم کر دی جائے تو یو ایف جی میں اضافے سے گیس سپلائی کرنے والی دونوں کمپنیوں کے لیے تباہ کن صورتحال پیدا ہو جائے گی۔

اگر سی پی پیز بند کردیے گئے تو گیس کمپنیوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ معاہدہ شدہ آر ایل این جی کا بہت زیادہ سرپلس ہوگا جسے وفاقی حکومت اپنے معاہدے کو پورا کرنے کے لیے خریدنے کی پابند ہے لیکن گھریلو صارفین کے علاوہ اس مہنگی گیس کا کوئی خریدار نہیں ہو گا۔یہاں تک کہ جنریشن کمپنیز (جی این سی اوز) اور انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) فی الحال بجلی کی طلب میں خاطر خواہ کمی کی وجہ سے گیس نہیں خرید رہے جس کی وجہ سے گیس کمپنیوں کو اوور پریشر کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ایس این جی پی ایل کے جاری کردہ خط کا حوالہ دیا جس میں ایم او ایل پاکستان آئل اینڈ گیس کمپنی سے 75 ایم ایم سی ایف ڈی کی گیس سپلائی کو فوری طور پر کم کرنے کی درخواست کی گئی ہے کیونکہ پاور سیکٹر کی جانب سے گیس کی کم طلب کی وجہ سے ایس این جی پی ایل کو انتہائی دباؤ کا سامنا ہے۔

پاکستان پہلے ہی شدید صنعتی بحران سے گزر رہا ہے جس کی تصدیق نیپرا کی حالیہ رپورٹ کا جائزہ لے کر کی جا سکتی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ صنعتوں کی جانب سے بجلی کی کھپت میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ آئی پی پیز اور جینکو کے پاس پہلے ہی ضرورت سے زیادہ بجلی موجود ہے لہذاسی پی پیز کو بند کرنے میں دانشمندی نہیں۔جب کوئی صنعتکار اپنے کیپٹیو پاور پلانٹ کو کباڑ کا ٹکرا بنتا دیکھے گا تو وہ فوری طور پر پیداواری یونٹ بند کر دے گااور اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی نیا آنے والا ایسی صورتحال میں یہاں صنعتی یونٹ لگانے کا ہر گز بھی نہیں سوچے گا۔ہمیں خدشہ ہے کہ صنعتی کارکردگی مزید گراوٹ کا شکار ہوکر اپنی اب تک کی کم ترین سطح تک پہنچ جائے گی۔

سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کیپٹو پاور پلانٹس کو بند کرنے کا فیصلہ واپس لے اور اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈلے کر بہتر حل تلاش کرے اور اس خاص مسئلے پر مذاکرات کے لیے فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے بصورت دیگر اس صنعت مخالف اقدام سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

مشکل معاشی حالات کی وجہ سے درجنو ں کمپنیز منصوبے کو ختم کرنے کا فیصلہ کر رہی ہیں ۔اس سلسلے میں متعد د کمپنیز بند اور اپنے نئے منصوبوں بند کر رہے ہیں۔اب معلوم ہو ا ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات نے پاکستان میں بڑی لسٹڈ کارپوریشنوں کو ملازمین کی تعداد کم کرنے اور کام بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ نے مشکل معاشی حالات کی وجہ سے ٹن مل بلیک پلیٹ منصوبے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔منگل کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو اپنے نوٹس میں اس پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے کمپنی نے بتایا کہ بورڈ ٹی ایم بی پی منصوبے کے حوالے سے ایک اہم فیصلے پر پہنچ گیا ہے۔ چیلنجنگ معاشی حالات کی وجہ سے ، جس میں بلند افراط زر ، مارک اپ کی شرح میں اضافہ ، اور روپے سے امریکی ڈالر کی برابری میں نمایاں اتار چڑھاؤ شامل ہیں ، کمپنی نے ٹی ایم بی پی منصوبے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ نے کہا کہ موجودہ معاشی ماحول نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جہاں ٹی ایم بی پی منصوبے کا تسلسل مالی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔

مزید برآں، میٹریل اور سازوسامان کی بڑھتی ہوئی لاگت اور سرمائے کی زیادہ لاگت نے منصوبے کے متوقع منافع اور کمپنی کی ابتدائی منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ کمپنی کی جانب سے اس غیر یقینی وقت میں مالیاتی استحکام اور اپنے آپریشنز کے استحکام کو ترجیح دینے کی ضرورت کی روشنی میں کیا گیا ہے، کمپنی اپنے وسائل کو ذمہ دارانہ طور پر منظم کرنے اور اپنے کاروبار کی طویل مدتی افادیت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ کا اعلان پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتا ہے،حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 24-2023 کی اپریل تا جون سہ ماہی میں اس کی جی ڈی پی میں 3.07 فیصد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ماہ صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ نے فروخت میں کمی اور مزدوروں کی ہڑتال کی وجہ سے بلوچستان میں واقع اپنے پلانٹ کو بند کرنے کا باضابطہ عمل شروع کیا تھا۔پی ایس ایکس کو بھیجے گئے نوٹس میں کمپنی نے اس فیصلے کی وجہ فاٹا اور پاٹا خطے میں ٹیکس استثنیٰ کی وجہ سے فروخت میں کمی، فوڈ پیکیجنگ کے لیے ٹن پلیٹ کے بجائے گالوالوم کے استعمال میں اضافہ اور ونڈر پلانٹ کو دوبارہ کھولنے سے روکنے والے ملازمین کی غیر قانونی ہڑتال کو قرار دیا تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کار عوام کہا جائے ۔ایک جانب حکومتی ادارے بند ہو رہے اور دوسر جانب نجی اداروں کے مالکان کا کہنا ہے عحکومت نے سرمایہ کاری کو خود تالا لگا دیا ہے۔