اسرائیل نے غزہ اور لبنان پرجارحیت کے دوران اپنے زیر انتظام مغربی کنارے پر بھی معاشی جنگ مسلط کردی ہے۔ غزہ میں ایک برس سے جاری جنگ کے اثرات مقبوضہ مغربی کنارے میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ورلڈ بینک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ مغربی کنارے کی معیشت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مزدوروں پر عائد پابندیوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔ بے روزگاری کی شرح، جو ایک برس قبل 12 فیصد تھی اب 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ فلسطینی وزارت معیشت کے مطابق گزشتہ ایک برس میں 3لاکھ فلسطینیوں کوملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر اسرائیل میں روزگار حاصل کرتے تھے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2024 ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران فلسطینی علاقوں کی معیشت 25 فیصد سکڑ گئی ہے۔ ملازمتوں کی تلاش میں پریشان فلسطینی نقصان کی پرواکیے بغیر اسمگلروں کے سہارے سخت پہرے والی رکاوٹوں کو پھلانگنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔
جب اسرائیلی فوج انہیں دیکھتی ہے تو انہیں گرفتار کر لیتی ہے اور کئی بار تو انہوں نے ایسے فلسطینیوں پر فائرنگ بھی کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس ایسے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے ان مزدوروں کی تعداد کا پتا چل سکے، جو اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ فلسطینی مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایسوسی ایشن مان کے ڈائریکٹر آصف ایڈیو کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ مزدوری اور کام کی تلاش کی کوشش کے دوران فائرنگ سے مارے گئے۔ جنگ کی شروعات کے بعد مغربی کنارے میں بہت سے فلسطینیوں کا روزگار پابندیوں کی وجہ سے بند ہوگیا۔ کچھ نے گھر کا سازوسامان بیچا۔ سڑکوں کے کنارے پر بچے ٹشو رول، پانی کی بوتلیں اور ائر فریشنر بیچتے نظر آتے ہیں جب کہ کچھ افراد نے سڑکوں پر سینڈوچ بیچنے کے خوانچے لگا لیے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ملازمتوں سے نکالنا ہی وجہ نہیں، بلکہ فوج نے بھی مغربی کنارے پر اپنی گرفت سخت کرلی ہے اور پورے علاقے میں چیک پوائنٹس کا ایسا جال بچھا دیا ہے جس کی وجہ سے کاروبار اور نقل و حرکت متاثر ہوئی ہے، پرتشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے مطابق گزشتہ برس کے دوران 700سے زائد فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت سے پرتشدد جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوئے، کچھ کو صہیونی فوج پر پتھر پھینکنے کی پاداش میں گولی مار دی گئی جب کہ کچھ بالکل بے ضرر تھے۔
اسرائیل میں فلسطینی مغربی کنارے کے مقابلے میں 3گنا زیادہ اجرت حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان 700کلومیٹر طویل اور 7میٹر بلند دیوار حائل ہے۔ اس دیوار کی تعمیر 2002 ء میں دوسرے انتفادہ یا فلسطینی بغاوت کے دوران شروع کی گئی تھی جب بہت سے فلسطینی شہریوں نے اسرائیل میں خود کش بمباری میں حصہ لیا۔ یہ صورت حال انسانی اسمگلروں کے لیے نادر موقع بن گئی ہے اور وہ دیوار پھلانگنے میں مدد فراہم کرنے کے بدلے خطیر رقم بٹورلیتے ہیں۔ یہ اسمگلر سیڑھی، رسی اور اسرائیلی سر زمین پر گاڑی بھی فراہم کرتے ہیں جو ان مزدوروں کو آبادیوں میں غائب ہونے میں مدد دیتی ہے۔ فلسطینی مزدوروں کے حقوق کے ماہر عرفات عمرو کے مطابق اسمگلر 79 سے 260 ڈالر تک معاوضہ لیتے ہیں۔ عمرو کے مطابق ایک دفعہ اسرائیلی حصے میں پہنچ جانے کے بعد کام ملنا مشکل نہیں ہے۔ اسرائیل میں مزدوروں کی کمی ہے اور تعمیر و زراعت کے شعبوں میں فلسطینی مزدوروں کو ہاتھوں ہاتھ کام مل جاتا ہے۔ پکڑے جانے سے بچنے کے لیے یہ مزدورکھلے آسمان کے نیچے زرعی زمینوں، درختوں اور زیر تعمیر عمارتوں میں سوتے ہیں۔ یاتا نامی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور رؤف عذرا کا کہنا تھا کہ انہیں ایک زیر تعمیر عمارت میں 2ہفتوں کا کام ملا تھا۔ جنوبی اسرائیل میں واقع اس عمارت میں انہیں 65 ڈالر روزانہ کی اجرت دینے کا وعدہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ حکام کی نظر میں آنے سے بچنے کے لیے وہ رات کو اس عمارت میں ہی رہیں گے۔ اگلے روز اسرائیلی پولیس نے اس عمارت پر چھاپا مارا اور عذرا سمیت دیگر فلسطینی مزدوروں کو زیر حراست لے لیا۔ عذرا کے مطابق زیر تعمیر عمارت کا مینیجر وہاں سے بھاگ گیا۔ عذرا کو 40روز کی قید اور 390 ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی اور قید کے بعد انہیں واپس مغربی کنارے بھیج دیا گیا۔ ان کے اسرائیل میں داخل ہونے پر 3برس کی پابندی عائد کر دی گئی۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) اور معاشی و سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا (ای ایس سی ڈبلیو اے) کے ایک مشترکہ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں غربت کی شرح بڑھ کر 58.4 فیصد ہو گئی ہے اور اس طرح تقریباً 10 لاکھ 74 ہزار لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ علاقے کی مجموعی آمدن یا جی ڈی پی میں 26.9 فیصد کمی آئی ہے جس سے 2023 ء کے مقابلے میں معیشت کو 7.1 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ یو این ڈی پی کے منتظم ایکم سٹینر نے کہا کہ جنگ سے غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر سنگین نوعیت کے مختصر اور طویل مدتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس قدر قلیل مدت میں غیرمعمولی انسانی نقصان، سرمائے کی تباہی اور غربت میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں ترقی کا سنگین بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس سے آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ جنگ کا دورانیہ مزید طویل ہونے کی صورت میں فلسطینی علاقوں کے ممکنہ حالات کی انتہائی سنگین تصویر سامنے آتی ہے۔ اگر یہ جنگ مزید جاری رہی تو غربت میں 60.7 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے اور 10 لاکھ 86 ہزار افراد کی زندگی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی۔ اسی طرح جی ڈی پی میں 29 فیصد یا 7.6 ارب ڈالر کے مساوی کمی واقع ہو گی۔ رپورٹ میں انسانی ترقی کے اشاریے (ایچ ڈی آئی) میں بھی تیزی سے کمی آنے کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ ان حالات میں فلسطینی ریاست کا ایچ ڈی آئی 0.647 پوائنٹ تک گر سکتا ہے۔ اس طرح یہ علاقہ ترقی کے اعتبار سے 20 سال پیچھے چلا جائے گا۔ رپورٹ میں غزہ کے حوالے سے لگائے گئے تخمینے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ مستقبل میں ممکنہ طور پر اس علاقے کو مکمل طور پر بیرونی امداد پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ جنگوں کے برعکس غزہ میں ہونے والی حالیہ تباہی کا حجم اور وسعت غیرمعمولی ہے۔ اس میں رہائشی عمارتوں، روزگار، قدرتی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کا بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ اس نقصان کے اثرات آنے والی دہائیوں میں بھی دکھائی دیتے رہیں گے۔
دوسری جانب غزہ میں تباہی و نسل کشی کے بعد بچ جانے والے شہریوں کی عارضی پناہ گاہوں میں حالات انتہائی بدتر ہیں۔ انسانی امدادی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خیموں میں رہنے والے فلسطینی خاندانوں کے لیے ایک کلو آٹے کے تھیلے (بشرط یہ کہ میسر آجائے) کی قیمت تقریباً 40 پاؤنڈ یعنی 14 ہزار پاکستانی روپے سے زیادہ ہے ۔ ہزاروں خاندان سڑکوں، اسکول اور اسپتال کے صحن میں یا چوراہوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی تہ خانے نہیںبلکہ صرف چند تباہ شدہ دیواریں ہیں۔ بھاگنے اور وحشیانہ بمباری سے چھپنے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔ عالمی تنظیم آکسفیم کا کہنا ہے کہ تقریباً 3لاکھ افراد مکمل طور پر امداد منقطع ہونے سے کسمپرسی کا شکار ہیں۔ غزہ شہر میں لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں اور جانوروں کی خوراک سے روٹی بنا رہے ہیں۔ آکسفیم نے کہا کہ وہاں اب تباہ کن بھوک ہے، لوگ بیت الخلا کا پانی پیتے ہیں اور جنگلی پودے کھاتے ہیں۔ اسرائیلی فوجی بحیرہ روم کے ساحل کے قریب امدادی سامان لانے والوں پر گولیاں برسا دیتے ہیں۔ اگرکوئی امدادی ٹرک کسی طرح پہنچنے میں کامیاب ہوجائے تو اس کے گرد جم غفیر لگ جاتا ہے۔ آکسفیم نے کہا کہ امداد، سیکورٹی اور علاقوں تک رسائی میں پیش رفت کے بغیر ایک تباہ کن قحط منتظر ہے۔