ہر عروج کو زوال ہے، ایک وقت تھا کہ بر صغیر میں اخبارات کا توتی بولتا تھا، مسلم اخبارات کا انتظار ہوتا تھا، ایسا انتظار کہ اخبار پڑھ کر مسلمان حالات سے آگہی حاصل کرتے اور اخبار ان کے لیے جسمانی رزق سے کہیں بہتر درجے کی غذا تھا کہ اس سے ذہنی سکون اور تسلی ملتی۔ زمیندار ایک بڑا اخبار گزرا ہے، انگریز کے زمانے میں جب بھی یہ اخبار سلطنت برطانیہ کے حکم پر بند ہوا یا پریس ضبط ہوا، مسلمان چندہ اکٹھا کرکے ’’ زمیندار‘‘ کی بحالی کا بندوبست کرتے، برصغیر میں یہ اعزاز کسی دوسرے اخبار کو حاصل نہیں ہوا۔ آج بھی مولانا ظفر علی خان کا نام صحافت میں ادب و احترام سے لیا جاتا ہے، زمیندار کا انتظار اس لیے تھا کہ وہ ایک نظریاتی اخبار تھا اور اس میں خبر ہوتی تھی۔ اخبار خبر کے بل بوتے پر فروخت ہوتا تھا، ہاتھوں ہاتھ نکلتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد کتنا عرصہ نظریاتی صحافت رہی؟ ایوب خان نے پاکستان رائٹرز گلڈ بنایا، قدرت اللہ شہاب اس کے پہلے سیکرٹری بنائے گئے، جمیل الدین عالی، اعزازی افسر رابطہ مقرر ہوئے، اشفاق احمد، علاقائی معتمد بنائے گئے، ہاجرہ مسرور (حبیب وہاب الخیری کی خواہر نسبتی) حلقہ مغربی پاکستان سے منتخب کی گئیں، یہ تو چند ایک نام ہیں دیگر بہت سے نام ہیں، پاکستان رائٹرز گلڈ کے پہلے ہی کنونشن میں جناب صدر پاکستان ایوب خان نے دس ہزار روپے کا عطیہ دیا، بس یہی عطیہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہماری صحافت اندھی ہوتی چلی گئی، معاشرے میں اندھا پن پھیلتا چلا گیا اور ہم سری لنکا سے آنکھوں کا عطیہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ رائٹرز گلڈ کی تشکیل کیا ہوئی گویا اگلے روز نظریاتی صحافت مک گئی، پھر جھوٹ فریب، فراڈ حرص کی دلدل گہری سے گہری ہوتی چلی گئی، ایوب خان خوش رہتے، خوش کیوں نہ رہتے، اخبار تو چھپ رہے تھے مگر خبر نہیں چھپ رہی تھی، ایوب خان کا زمانہ گزرے کتنے سال ہوچکے ہیں؟ یہی کوئی 57 سال، مگر آج بھی ملکی صحافت پر اس کے سایے موجود ہیں، آج بھی اخبارات چھپ رہے ہیں، مگر خبر نہیں چھپ رہی، بس یوں سمجھیں کہ ’’روزنامہ اشتہارات‘‘ چھپ رہے ہیں، پھر ملک میں تحریک چلائی جاتی ہے کہ اخبار بینی کو فروغ ملنا چاہیے یہ کام کیسے ہوگا؟ ’’روزنامہ اشتہارات‘‘ تو کبھی بھی کسی بھی اخبار کی قوت نہ بنا تھا نہ بن سکے گا، اس کے لیے خبر کی خاک وخون سے گزرنا ہوگا، طوفان سے ٹکر لینا ہوگی، موج میں طلاطم پیدا کرنا ہوگی تب کہیں جا کر خبر بھی قوت بنے گی اور اخبار بھی۔
ہم کم و بیش تھوڑے وقفے کے بعد ایک اطلاع پڑھتے ہیں کہ فلاں اخبار بند ہوگیا، عالمی سطح پر بہت سے معروف اخبار بند ہوچکے ہیں، کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا کو کھا گیا، نہیں بھئی یہ نہیںہوا، یہ تلاش جاری رکھی جائے کہ پرنٹ میڈیا کو اصل میں کون کھا گیا، ایک روز یہ راز کھل ہی جائے گا کہ جب خبر کے بجائے اشتہارات اہمیت حاصل کرگئے ہیں تو پھر کسی کو یا خود کو دھوکہ میں رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جس روز یہ سمجھ میں آگیا اسی روز یہ راز بھی پالیں گے کہ اخبارات کی اہمیت کیوں کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ پیٹ آگے ہوگیا ہے اور قلم پیچھے ہوگیا ہے یا پسپا کردیا گیا ہے بس یہ باریک نکتہ بھی جلد ہی سمجھ میں آجائے گا۔ رہ گئی بات عامل اخبار نوسوں کی، ان کی جدوجہد کی،اور ان کے آزادی اظہار کی تحریک کی، میڈیا کی آزادی اظہار کیا ہے؟ آزادی اظہار یہ ہے کہ سچ اور کسی مالی مفادات کے آلائش کے بغیر، ملک اور ریاست کے مفاد کا دفاع کرتے ہوئے خبر دی جائے، اور وہ خبر شائع نہ ہو، یا اس خبر کی اشاعت روکنے کے لیے دبائو آجائے، یہاں آزادی اظہار متاثر ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ بھائی جان، جب خبر ڈیسک پر آجائے اور چھپنے سے قبل ہی ان کو اطلاع ہوجائے جن کو روکنا ہے تو پھر آزادی اظہار کے خلاف رکاوٹ کو کہیں اپنے گھر میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے، مطلب اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرو۔
پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں ایک ہی پی ایف یو جے تھی، یہ تقسیم کیوں ہوئی؟ ہر کوئی اس تقسیم کے لیے دوسرے کی جانب انگلی اٹھاتا ہے، میں میں اور تم تم کی بحث نے ملک میں ایک سے دو، دو سے تین، تین سے چار پی ایف یو جے کے پانچ اور چھے ستون کھڑے کردیے ہیں ان ستونوں نے اخبار نویسوں کا سکون چھین لیا ہے، فائدہ کس کو ہوا؟ ایوب خان کی سوچ کو فائدہ ہوا، اس سوچ نے جو بنیاد رکھی، آج بھی اس سوچ کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اشرافیہ آج محفوظ ہوگئی ہے اس کے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائٹیاں اس مافیا کا حصہ بن چکی ہیں، مجال ہے کوئی خبر دے کہ کس سوسائٹی نے کس زمین پر قبضہ کرکے ہائوسنگ اسکیم شروع کی ہے؟ یہ وہ مافیا ہے جسے اب کسی خبر کے چھپنے کا کوئی خوف نہیں رہا، انہیں علم ہے جس سے خبر لکھی جانی ہے اس قلم کا سر قلم ہوچکا ہے۔ ایک زمانہ تھا سیاسی کارکن مطالعہ کرتا تھا، اخبار بینی اس کا ذوق تھا، اس کی جیب میں ایک پیسا نہیں ہوتا مگر ذہن میں بہترین تصورات تھے، بحث کے لیے بہترین دلیل اس کے پاس ہوتی تھی، آج کل کیا ہے؟ میں نے وہاں پلاٹ لے لیا ہے تو نے کہاں لیا ہے، بس یہی بحث اب سیاسی چوپالوں میں ہورہی ہے، بھٹو صاحب کے دور میں ڈپو سیاسی کارکنوں کو دیے گئے، یوں بھٹو صاحب نے خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے نظریاتی کارکن کھو دیے، یہ کارکن آج کہاں ہیں؟ ان کی نسل آج کس کے ساتھ کھڑی ہے؟ بس اب ملک میں نظریاتی صحافت رہی نہ نظریاتی سیاست، سب ایڈ ہاک ازم کے ساتھ چل رہے ہیں کہ ہر مہینے ہفتہ احتجاج منایا جاتا ہے اور یہی سیاست رہ گئی اور ہم ہر روز اخبار کے نام پر ’’روزنامہ اشتہارات‘‘ پڑھ رہے ہیں، یہی صحافت رہ گئی ہے، اب رپورٹرز اور مدیر اس ماحول میں اپنی جگہ تلاش کریں، جہاں جگہ ملتی ہے وہاں بیٹھ جائیں والا ماحول ہے بھائی، رہ گئی بات پی یف یوجے کی، ایوب خان نے بھی پہلے کنونشن میں دس ہزار دیے تھے، آج بھی کچھ ایسے ہیں جو ایوب خان کے ہی دس ہزار کو آج بھی کافی سمجھ رہے ہیں، کہ ان کی دال روٹی چل رہی ہے۔