کہانی اتھارٹی اور اپنے پرائے کی

386

اہل مغرب اور چیزوں کے علاوہ حیران ہونے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ ’’بزرگ‘‘ بن کر ایک دنیا خلق کرتے ہیں اور پھر ’’بچوں‘‘ کی طرح اس دنیا کے نتائج پر حیران ہوتے ہیں۔

اہل مغرب کی ایسی ہی ایک حیرانی چند روز پیش تر ہم تک پہنچی ہے۔ اطلاعات کے مطابق برطانیہ میں ماہرین نفسیات کی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کسی تردد اور سوال جواب کے بغیر ’’اتھارٹی‘‘ کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ یہ اتھارٹی کوئی ’’وردی والا‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی ڈاکٹر اور ماہر نفسیات بھی۔ اس حوالے سے امریکا کے ایک ماہر نفسیات نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اتھارٹی کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے زیادہ اور اتھارٹی کے خلاف بغاوت سے کم جرائم برآمد ہوتے ہیں۔ ماہرین کے بقول اس تحقیق سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹالن کے عہد میں عام لوگوں نے کیوں اپنے جیسے لاکھوں افراد کے قتل عام میں حصہ لیا۔ اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل رہنے والے ایک فوجی اہلکار نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ بوسنیا میں جو کچھ ہوا حالات مہیا ہوں تو برطانیہ میں بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے۔

اس سلسلے میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ماہرین نے مصنوعی تجربے کے دوران دیکھا کہ لوگ کسی بھی حوالے سے ’’اپنے‘‘ اور ’’پرائے‘‘ کا امتیاز قائم کر لیے ہیں اور پھر اس امتیاز کے سے اپنے مطابق ان کا عمل اور رد عمل سامنے آتا ہے۔ مانچسٹر یونائیٹڈ اور لیور پول برطانیہ کے دو مقبول فٹبال کلب ہیں۔ ماہرین نے ایک شخص کو میچ کے دوران لیور پول کلب کا مخصوص لباس پہنا کر اسے زخمی باور کراتے ہوئے مانچسٹر یونائیٹڈ کے حامیوں کے اسٹینڈ میں ڈال دیا۔ نتیجہ یہ کہ وہاں سے گزرتے ہوئے لوگ اسے زخمی حالت میں پڑا ہوا دیکھتے رہے اور دو چار کے سوا کسی نے اس کی ’’خیریت‘‘ دریافت نہیںکی۔ پھر اس شخص کو مانچسٹر یونائٹیڈ کا مخصوص لباس زیب تن کراکے وہیں ڈالا تو اکثریت نے اس کی خیریت دریافت کی اور پوچھا کہ وہ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ ایک تجربہ اسکول میں کیا گیا، جہاں ایک کلاس کے بعض طلبہ کو کلاس ٹیچر نے ’’ذہین‘‘ قرار دے کر ان کا گروپ بنا دیا۔ نتیجہ یہ کہ تھوڑی ہی دیر بعد ’’ذہین‘‘ قرار پانے والے طلبہ نے اپنے گروپ سے باہر رہ جانے والے طلبہ کی ’’تضحیک‘‘ شروع کر دی۔

ایک دلچسپ تجربہ ٹرین میں کیا گیا۔ ایک اجنبی شخص کسی وردی والے کے ہمراہ ریل کے ڈبے میں داخل ہوا اور اس نے ایک سیٹ پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ سیٹ چھوڑ دیں اور لوگ سیٹ چھوڑ کر کھڑے ہو گئے۔

یہ مثالیں اگر چہ مغرب سے آئی ہیں لیکن ہمارے لیے ان میں کوئی نیا پن نہیں کیونکہ ایسی درجنوں مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں۔ In-group اور out-group یعنی اپنا گروہ اور پرایا گروہ عمرانیات کی اصطلاحیں ہیں اور ان اصطلاحوں کے عملی مظاہرے ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مثلاً فوجی، سول، پنجابی، پٹھان، مہاجر، سندھی، شہری، دیہی، بالائی طبقہ، متوسط طبقہ، انگریزی میڈیم، اردو میڈیم۔ پھر ان گروہوں کے بھی اپنے In اور out گروپ ہیں۔ بد قسمتی سے ان گروہوں میں آویزش کی بدترین صورتیں بھی موجود ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ’’مہاجر‘‘ کس طرح میاں نواز شریف کو Justify کر رہے ہیں اور ’’سندھی‘‘ کس طرح بینظیر کا دفاع کر رہے ہیں لیکن آج ہمارا موضوع یہ نہیں ہے۔

انسان اتھارٹی کے آگے ہتھیار ڈالتا ہوا پایا جاتا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ایسا ہونا قرین قیاس ہے، اس لیے کہ اتھارٹی اصولی طور پر ’’برتر‘‘ کی علامت ہے۔ لیکن مغرب کا معاملہ اس سلسلے میں کچھ اور ہے۔ دیکھا جائے تو ’’جدید مغرب‘‘ کی تو پیدائش ہی کا ئنات کی سب سے بڑی اتھارٹی کے انکار سے ہوئی ہے۔ یعنی اہل مغرب نے کلیسا کی اتھارٹی کے انکار سے آغاز کیا۔ مگر وہ صاحب وحی اور وحی کی اتھارٹی کا منکر ہوا اور بالآخر اس نے خدا ہی کا انکار کر دیا۔ یہاں ہمیں اقبال سے ہو کر گزرنا ہو گا جس نے کہا ہے:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ظاہر ہے اگر انسان خدا کی اتھارٹی کا انکار کرے گا تو اسے لازماً ہزاروں اتھارٹیز کے آگے سر جھکانا ہو گا۔ خدا کی اتھارٹی کا انکار کر کے انسان جس اتھارٹی کے قبضے میں چلا جائے کم ہے لیکن اس بحث کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔

جہاں تک خدا کی اتھارٹی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا تعلق ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ انسان جب خدا کو مانتا ہے تو کسی مجرد تصور کو نہیں مانتا۔ وہ ایسے خدا پر ایمان لاتا ہے جو خالق ہے، مالک ہے، رزاق ہے، رحیم ہے، رحمن ہے، کریم ہے، جبار ہے اور قہار ہے۔ ان حقائق سے جو ’’تقدیس‘‘ پیدا ہوتی ہے وہ بے مثال ہے۔ وحی خدا کا پیغام ہے اور نبی خدا کا پیغام لانے والا ہے۔ پھر انبیا کی پاک اور مقدس زندگیاں انسانوں کے سامنے ہوتی ہیں، اس لیے ان کی اتھارٹی کے آگے سر جھکا دینے کی بات بھی ’’معمول‘‘ کے مطابق ہے، کوئی ’’معجزہ‘‘ نہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے جیسے انسانوں کے سامنے سر جھکا دے۔ مغرب جسے اپنی ’’بغاوت‘‘ پر بڑا ناز ہے، وہاں صدیوں سے یہی ہو رہا ہے، بس یہ ہے کہ وہاں ’’مسجود‘‘ بدل جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بجائے خود مغرب کے ’’انکاری‘‘ دعوے کی تردید ہے۔

غور کیا جائے تو مقدس اتھارٹی کی قبولیت انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور انسانی طبیعت کو اس سے بڑی مناسبت ہے۔ انسان کتنی تکالیف اور مشکلات سے گزرتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ سے ظلم منسوب کرنے کی کوئی معمولی سی خواہش اپنے اندر نہیں پاتا۔ وہ یہی کہتا ہے کہ تو رحمن ہے ، رحیم ہے، مجھے بخش دے، مجھے پر رحم کر۔ یہی وجہ ہے کہ اس تعلق میں زندگی اور برجستگی ہوتی ہے۔ لیکن انسان، انسان کی اتھارٹی سے چار دن میں عاجز آ جاتا ہے، اس لیے کہ یہ ایک مشینی قسم کا تعلق ہے جس میں زندگی اور برجستگی نہیں ہوتی، چنانچہ خواہ انسان نہ کہے لیکن ایک تنَفُّر اس اتھارٹی کے خلاف اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مقدس اتھارٹی کے آگے سر تسلیم خم محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا جاتا ہے اور دوسری تمام اتھارٹیز کے سامنے ایسا کرنے کا محرک یا تو اسرار سے عاری خوف ہو گا یا مفاد یا مجرد مجبوری۔

انسان خدا اور مذہب کا انکار کر دے تو حقیقی معجزہ از خود زندگی کے منظر نامے سے خارج ہو جاتا ہے اور جعلی معجزات کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ یہ امر کوئی راز نہیں کہ عصری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہت سے مظاہر کو معجزات کے طور پر لیا گیا ہے، یہاں تک کہ ’’انقلاب روس‘‘ اور اس جیسے دوسرے انقلابات کو دیا گیا ’’ٹریٹمنٹ‘‘ بھی معجزوں کی یاد تازہ کرنے والا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس امر میں حیرت کی کوئی بات ہی نہیں ہے کہ اسٹالن نے کسی وقت کے بغیر لاکھوں لوگوں کو قتل کرا دیا اور قتل کرنے والوں نے نہایت سہولت کے ساتھ اس قتل عام میں حصہ بھی لے لیا۔

یہ ٹھیک ہے کہ زندگی میں ’’اپنے‘‘ اور ’’پرائے‘‘ کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک حقیقی مذہبی معاشرے میں اپنے اور پرائے کی صرف دو شکلیں ہیں۔ ایک اہل ایمان اور دوسرے کفار سارے اہل ایمان ایک امت ہیں اور سارے کفار ایک ملت۔ لیکن جدید مغرب نے جو معاشرہ پیدا کیا ہے اس میں In اور out گروپس کی بھر مار ہو گئی ہے جیسا کہ زیر بحث رپورٹ سے ظاہر ہے کہ یہ قصہ کھیل تماشے تک جا پہنچا ہے۔ اہل مغرب کی بات ہوتی ہے تو بعض مسلمانوں کو خیال آتا ہے ہم تو بہر حال اہل مغرب میں سے نہیں ہیں۔ مگر اب مغرب کسی جغرافیے کا نام نہیں۔ مغرب ایک طرز فکر ہے، ایک تناظر ہے۔ اور یہ طرز فکر اور تناظر ہمارے یہاں بھی وبا کی طرح پھیل چکا ہے چنانچہ ہمارے یہاں بھی ہزار بنیادوں پر اپنے پرائے کی تفریق عام ہو گئی ہے۔ اتھارٹیز اور In اور out گروپس کی بھر مار کے تقاضے پورے کرتے کرتے انسان اتنے مضمحل ہو گئے ہیں کہ جہاں حکم نہیں ہوتا وہاں بھی سجدہ گزار دیتے ہیں۔ منٹو زندہ ہوتا تو وہ کھول دو کے بعد سر جھکاؤ کے عنوان سے کوئی افسانہ ہمارے اجتماعی شعور کی طرف اچھال چکا ہوتا۔