آئینی ترمیم کا کھیل۔ عوام جانور نہیں!!

314

آج کل حکومت میں بیٹھے لوگ، قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم… آئینی ترمیم… کھیل رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ میں بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اکثریت کے بقول ان میں سے کسی نے آئینی ترمیم کی شکل نہیں دیکھی پھر بھی پورا پورا دن اس کے لیے ارکان اسمبلی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کہ ترامیم آرہی ہیں اور ان کے لیے ووٹ دینا ہیں۔ عوام کے کسی مسئلے سے نہ انہیں لینا دینا ہے اور نہ ہی اس کے حل کے لیے کچھ کرنا ہے، یوں قومی اسمبلی میں پورا دن بیٹھ کر گزارا ہے۔ مہنگائی، بدامنی اور بیروزگاری عوام کے مسائل ہیں جن سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیٹھے لوگوں کو کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ اسمبلی میں بیٹھے ہوں یا سڑکوں پر نکلیں انہیں عوام کے مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسمبلی میں وقت گزارتے ہیں تو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سڑکوں پر آتے ہیں اسی نکتے کو اہمیت دیتے ہیں کہ کیسے عوام کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کریں۔ سو آج کل آئینی ترمیم کے لیے دن رات جدوجہد ہے۔ ملاقاتیں ہیں اور جوڑ توڑ ہے۔

آخر یہ آئینی ترامیم ہیں کیا؟
یہ کوئی دوچار آئینی ترامیم نہیں ہیں فی الحال جو تفصیل سامنے آئی ہیں وہ 53 ترامیم ہیں۔ جو عدالتی اصلاحات کہی جارہی ہیں۔ ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم یا آئینی پیکیج عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب نے کہا ہے کہ حکومت کے بہت سے حساس معاملات عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہیں اور ان حالات میں آئینی پیکیج لانے سے ملک میں حالات معمول پر آنے کے بجائے مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ یوں اس وقت آئینی ترمیم کی کیا تُک ہے۔ نہ ضرورت ہے نہ ماحول ہے… جو اسمبلی بذات خود متنازع ہو وہ کیسے آئینی اصلاحات کرسکتی ہے، پھر حکمران اتحاد کے پاس آئینی ترمیم لانے کے لیے نمبر بھی پورے نہیں ہیں۔ لہٰذا جوڑ توڑ کے لیے پیسہ اور دیگر فوائد کا لالچ دیا جارہا ہے۔ عوام کا پُرسان حال کوئی ہے؟ آئینی ترامیم کے گورکھ دھندوں میں مصروف حکومت کے اراکین کیا جانے انہیں اپنی تنخواہوں اور نئی نویلی گاڑیوں کی نوید مل رہی ہے۔ باقی اللّے تللّے بھی جاری ہیں۔ عوام مہنگائی میں بجلی کے بھاری بل بھگت رہے ہیں۔ ایک ہی جماعت ہے جو ان ایشوز پر آواز اُٹھا رہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن سے بجلی اور پٹرول کی قیمت کم کرنے کے لیے وعدے کیے گئے، دستخط کیے گئے لیکن ان وعدوں کو بھی طاق پر رکھ دیا گیا۔ مہنگائی پر احتجاج کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا۔ نابینا افراد جن کے ساتھ روزگار کا وعدہ تھا اپنے حق کے لیے احتجاج کریں تو پولیس کا لاٹھی چارج ان کی خبر لینے کے لیے موجود ہے۔ ایسا وحشیانہ تشدد وہ بھی معذوروں کے ساتھ!!۔ پھر حکومتی اراکین آئی ایم ایف کا قرض ملنے پر مبارکباد دے رہے ہیں۔ ہے یہ کوئی مبارکباد کی بات؟ وزیراعظم بیان دے رہے ہیں کہ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے، معصوم عوام اس بیان پر حیران پریشان ہیں کہ کہاں اور کیا قیمت کم ہوئی ہے؟۔ بات یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح کم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اشیا کی قیمتیں منفی یا کم ہورہی ہیں، عام صارفین کی روزمرہ کی استعمال کی اشیا کی قیمتیں تو اب بھی بڑھ رہی ہیں۔ البتہ قیمتیں بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے۔ یعنی اگست 2023ء میں مہنگائی کی جو شرح 27.84 فی صد تھی وہ اس سال اگست 2024ء میں کم ہو کر 9.6 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے، لیکن یہ کمی روزمرہ کے استعمال کی اشیا میں نہیں بلکہ ان اشیا کی قیمتوں میں آئی ہے جو طویل عرصے تک محفوظ رکھی جاسکتی ہیں۔

ماہرین معاشیات بتا رہے ہیں کہ اس سال مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا تقریباً چالیس فی صد خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے یعنی ایک تہائی آبادی سے زیادہ غربت میں زندگی بسر کررہی ہے۔ دوسری طرف حکومتی اراکین بیوروکریٹ اور جج، جنرل کی رہائش گاہیں، تنخواہیں اور الائونس دیکھیں۔ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں، اسسٹنٹ کمشنر تک کی سرکاری رہائش گاہیں سو سے اوپر کنال پر پھیلی ہوئی ہیں پھر ان کی اندرونی سجاوٹ بھی نچوڑے ہوئے ٹیکس سے، پھر عوام کے ٹیکس سے پلنے والے افسران انہی عوام کو جانوروں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ ان سب مسائل کا حل یہی ہے کہ عوام اپنے آپ کو جانور ثابت نہ کریں، اپنے مخلص ایماندار رہنمائوں کو پہچانیں اور ان کا ساتھ دیں۔