حکومت پاکستان اپنے بعض اقدامات سے پریشان ہے یا وہ بڑھ چڑھ کر ایسے دعوے کررہی ہے کہ خطرے کی بو محسوس ہونے لگی ہے، بار بار معیشت بہتر ہونے اور مہنگائی کم ہونے کے دعووں کے بعد اب یہ کہہ دیا گیا کہ مہنگائی ہماری توقع سے زیادہ کم ہوگئی ہے، اس دعوے میں فخر سے زیادہ حیرت اور استعجاب جھلک رہا ہے کہ ہماری کوشش تو اتنی نہیں تھی پھر مہنگائی میں توقع سے زیادہ کمی کیسے ہوگئی، ممکن ہے کوئی تحقیقاتی کمیٹی بٹھائی جائے اور مطلوبہ نتائج تک اسے اٹھنے سے منع کردیا جائے کہ یہ معلوم کرو کہ کن کن شعبوں میں مہنگائی کم ہوئی ہے، تاکہ اس کا کوئی حل نکالا جائے، اگر مہنگائی تیزی سے کم ہوگئی تو اس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں (حکومت کے لیے) بعض وزرا نے تو خدشہ بھی ظاہرکیا ہے کہ مہنگائی کم ہوتے ہی عوام بہت کچھ سوچنا چھوڑ کر بہت کچھ سوچنا شروع کردیں گے۔
عوام جو باتیں سوچ سکتے ہیں یا سوچنا شروع کریں گے، ان میں سب سے پہلی بات تو یہ ہوگی کہ اب بجلی گیس وغیرہ کے بل کم آئیں گے تو اس سے بچنے والی رقم کو کہاں لگائیں یاکم از کم ان بلوں کے لیے لیا جانے والے قرض سے جان چھوٹ جائے گی، اور اگر ایسا ہوگیا تو لوگوں کو آٹھ دس گھنٹے کام اور باقی وقت مہنگائی سے نمٹنے کی ترکیبیں سوچنے کا وقت نہیں لگانا ہوگا، اور اگر ایسا ہوگیا تو لوگ سوچنے لگیں گے، دیکھنے لگیں گے، پھر بولنے لگیں گے اور شاید وقت ملا تو گھروں سے نکلنے لگیں گے، لہٰذا!
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
یعنی لوگ تو پوچھیں گے کہ ہم کو تو نصیحت کہ سادگی اختیار کرو، کڑوا گھونٹ لو، ٹیکس بھرو، اور خود ہر چیز سے ماورا اور پر تعیش زندگی کیسے گزارتے ہو لہٰذا، ان کو زیادہ آسانیاں نہ دو، بلکہ آسانیاں ہی نہ دو، اور یہاں پروانے سے مراد دولت اقتدار اور تعیشات کے پروانے ہیں اور یہ اپنے احتساب کو خون ناحق ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ تو اسے ناحق خون ہی گردانیں گے۔
شاید ان ہی وزرائے باتدبیر کی تجاویز ہیں کہ فوری طور پر ہر احتجاج میں سب سے پہلے نکل پڑنے والے شہر کراچی کے لوگوں کے بجلی کے بلوں میں اضافے کی تیاری شروع کردی گئی۔ بجلی کے بل بڑھیں گے تو ان کے غم بھی بڑھیں گے پھر یہ ان ہی سوچوں میں گم ہوجائیں گے جن میں رہتے تھے اور ہم مزے میں رہتے تھے۔ اسی طرح خود سرکاری ادارے نیپرا نے اعتراف کیا ہے کہ کے الیکٹرک میں وہ صلاحیت نہیں تھی جتنا انہیں دے دیا گیا، اور یہی مسئلہ ہمارے حکمرانوں کا ہے کے الیکٹرک کے بارے میں کپیسٹی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ کیپسٹی وہی ہے جس کے کپیسٹی چارجز دے دے کر قوم اَدھ موئی ہوگئی ہے، لیکن یہ پورے ہی نہیں ہوتے، یہی مسئلہ حکمرانوں کا بھی ہے ان میں عوام کے مسائل حل کرنے کی کپیسٹی ہی نہیں ہے تو وہ یہی کریں گے جو کررہے ہیں، قرض لے لے کر ملک چلانے کی کوشش کیے جارہے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ قرض اور بھیک سے کوئی ملک نہیں چل سکتا قرض لیے جارہے ہیں اور حکومت کیے جارہے ہیں۔
ابھی کچھ دنوں سے حکومت پٹرول کی قیمت کم کررہی ہے لیکن اب نظر آرہا ہے کہ اگلے ہلے میں کثر نکال لے گی، کیونکہ عوام کو پریشان تو رکھنا ہے۔ ایک بات تو کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ حکومت کی توقعات اور عوام کی توقعات میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہوتا ہے وزیر خزانہ کو لگتا ہے کہ مہنگائی توقع سے زیادہ کم ہوگئی ہے، وہ کیا چاہتے تھے کہ 30 روپے کلو ملنے والے ٹماٹر 160 نہیں 200 روپے کلو ملنے چاہئیں، 6 سو روپے کلو والا گائے کا گوشت 12 سو کے بجائے 16 سو روپے کلو ملے یا دودھ سو روپے لیٹر والا سوا تین کے بجائے چار سوروپے لیٹر ملے، وہ گزشتہ مخصوص برسوں سے موازنہ کرکے عمران خان حکومت کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں لیکن اپنے پی ڈی ایم اوّل اور دوم کے ادوار میں ہونے والی تباہی پر نظر نہیں ڈالتے، صرف موجودہ حکومت کے دور میں بجلی کے نرخ دسیوں مرتبہ بڑھے ہیں، اور پٹرول بھی اس طرح کم زیادہ کیا جاتا ہے کہ حکومتی آمدنی میں کمی نہیں ہونے پاتی اور ڈیلرز کا منافع بھی جاری رہتا ہے۔
اب جو کے الیکٹرک کو 51 پیسے بجلی مزید مہنگی کرنے کی اجازت دی جارہی ہے اس سے صارفین کو بجلی لیے بغیر 85 کروڑ 30 لاکھ روپے اصافی دینے پڑیں گے۔ اسی طرح کراچی کے صارفین پر جولائی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی تلوار بھی لٹک رہی ہے اور کے الیکٹرک کو حسب روایت اضافہ ملنے کا امکان بھی ہے، 3 روپے 9 پیسے اضافے کے بعد صارفین کو 6 ارب 20 کروڑ 60 روپے بھی اضافی دینے ہوں گے۔
ان باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے مہنگائی توقع سے زیادہ کم ہونے کے اثرات زائل کرنے کا پورا انتظام کر رکھا ہے، بس اب ایک ہی فرق رہ گیا ہے کہ عوام کی توقع اور حکومت کی توقعات کے فرق کو سمجھنا ہوگا، اور وہ اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب لوگ ووٹ دینے نکلتے ہیں، ووٹ دیتے وقت ان حکمرانوں سے توقعات ہی غلط باندھی جاتی ہیں، جن لوگوں نے چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر آئی ایم ایف کے چوبیس پروگرام قوم پر مسلط کردیے اور وعدے کرتے رہے کہ ایک دفعہ کڑوی گولی نگل لیں پھر ملک ترقی کرے گا لیکن ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا، اور یہ لوگ مسلم لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی یا ق لیگ وغیرہ میں شامل ہوتے تھے اور جرنیلوں کے پٹھو رہے جیسے ایم کیو ایم وغیرہ، ان سب سے توقعات کیوں باندھی جاتی ہیں۔ بس یہی مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے غلط لوگوں سے توقعات نہ باندھی جائیں۔ پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔