کراچی کے سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی اور تعلیمی مسائل کے باوجود، ایک خوش آئند خبر یہ ہے کہ 27 سال بعد ایک سرکاری اسکول نے میٹرک سائنس گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ دہلی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کریم آباد کے طالب علم حافظ عبدالرافع طارق نے 1100 میں سے 1040 نمبر حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ ایک اہم کامیابی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے تو طلبہ میں ابھی بھی صلاحیت اور قابلیت کی کمی نہیں ہے۔ کراچی، جو وفاقی حکومت کو 65 فی صد اور سندھ حکومت کو 90 فی صد ریونیو فراہم کرتا ہے، اس کے سرکاری اسکولوں کی حالت ناقص ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک رپورٹ میں بھی اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ آج بھی کئی اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ بچوں کو کلاس رومز میں زمین پر بچھی دریوں پر بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔ سخت گرمی میں پنکھوں کی عدم موجودگی، کھڑکیوں اور دروازوں کا غائب ہونا، اور دیواروں و چھتوں کا اکھڑا ہوا پلاسٹر ایک عام بات ہے۔ کراچی میں گھوسٹ اسکول، گھوسٹ اساتذہ، اور گھوسٹ طلبہ کا مسئلہ ابھی تک موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ اسی شہر میں صفائی اور بنیادی سہولتوں کا حال بھی بدتر ہے۔ 60 فی صد طلبہ کو اپنے کلاس رومز خود صاف کرنے پڑتے ہیں کیونکہ اسکولوں میں خاکروب موجود نہیں ہیں۔ 95 فی صد اسکولوں میں بیت الخلاء تو ہیں، مگر ان میں سے 90 فی صد استعمال کے قابل نہیں۔ اسی طرح، پانی کی دستیابی بھی نہایت کمزور ہے۔ 55 فی صد اسکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ ان سنگین حالات کے باوجود حافظ عبدالرافع کی کامیابی نہ صرف ایک خوش خبری ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اگر تعلیمی سہولتوں میں بہتری لائی جائے تو سرکاری اسکولوں کے طلبہ بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت تعلیمی نظام میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرے، اسکولوں کی حالت بہتر بنائے، اور طلبہ کو وہ ماحول فراہم کرے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں۔