اسلام آ باد ‘ لاہور ،جھڑ پیں‘ شیلنگ ‘گر فتار یاں‘ کا ر کنان ڈی چوک پہنچنے میں کا میاب،پی ٹی آ ئی کااحتجاج ختم کرنے کا فیصلہ

74

اسلام آباد،لاہور(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں)اسلام آ باد اور لاہور میںجھڑ پیں‘ شیلنگ ‘گر فتار یاں‘ کا ر کنان ڈی چوک پہنچنے میں کا میاب۔پی ٹی آ ئی کااحتجاج ختم کرنے کا فیصلہ۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے ساتھ آئے پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے کارکنان کی جانب سے ڈی چوک تک پہنچنے کی کوشش کی گئی تاہم پولیس نے شیلنگ کرکے مظاہرین کو پیچھے دھکیل دیا جبکہ پی ٹی آئی مظاہرین کی جانب سے بھی پولیس پر شیلنگ کی گئی۔وفاقی دارالحکومت میں ہفتہ کے روزبھی دن بھر معمولات زندگی متاثررہے، جڑواں شہروں کو ملانے والے تمام راستے بند رہے، راولپنڈی سے مری جانے والے راستے بھی بند تھے۔ موبائل فون اور میٹرو بس سروس معطل رہی، کاروباری مراکز بھی متاثر رہے اور سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہے۔ڈی چوک پہنچنے اور روکنے کی کوشش میں اسلام آباد پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔پولیس نے شیلنگ کی تو پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا، دن بھر پولیس اور کارکنوں میں آنکھ مچولی ہوتی رہی۔برہان ٹول پلازہ پر علی امین کے قافلے میں شامل کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا، جناح ایونیو پر بھی کارکن جمع رہے۔26 نمبر چونگی پر بھی پولیس نے پکڑ دھکڑ کی اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جبکہ بلیو ایریا میں جمع ہوئے کارکنوں پر بھی شیلنگ کی گئی۔ ڈی چوک پر پولیس کی شیلنگ کے جواب میں پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا، چائنا چوک پر جمع ہوئے کارکنوں پر بھی شیلنگ کی گئی تاہم کارکنان نے آنسو گیس کا اثر زائل کرنے کیلیے اطراف کے درخت جلادیے۔ پی ٹی آئی مظاہرین کی جانب سے بھی پولیس پر شیلنگ کی گئی۔ڈی چوک پر پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنان کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری رہیں جبکہ اسلام آباد میں بارش کے باعث شیلنگ کے اثرات زائل ہونے پر مظاہرین بڑی تعداد میں ڈی چوک پہنچے، پولیس نے جناح ایونیو سے متعدد کارکنان کو گرفتار کرلیا۔ ڈی چوک پر احتجاج کے لیے قافلوں کی صورت میں پی ٹی آئی دھرنے کے مقام پر پہنچنے کیلیے کوشاں ہیں جس کے باعث پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہورہی ہیں۔بارش کے بعد کارکنان کی بڑی تعداد ڈی چوک پہنچی اور پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پیچھے دھکیل دیا تاہم کچھ دیر وقفے کے بعد پولیس نے شدید شیلنگ کی جس کے باعث مظاہرین پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ ڈی چوک کے قریب آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ صبح سے رات گئے تک جاری رہا۔مظاہرین کی جانب سے پولیس پر جوابی پتھراؤ اور شیل اٹھا کر واپس پھینکنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس سے قبل پتھر گڑھ کٹی پہاڑی پر مظاہرین نے شدید مزاحمت کر کے رکاوٹوں کو ہٹایا اور پھر قافلے کو ڈی چوک کی طرف بڑھایا۔بعد ازاں خیبرپختونخوا سے آنے والے پی ٹی آئی قافلے کے 8 سو کارکن پنڈی کی حدود میں داخل ہوئے۔ چونگی نمبر 26 پر مشتعل افراد نے ایک کرین اور ایک موٹرسائیکل کو آگ بھی لگائی۔جناح ایونیو پر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ کافی دیر جاری رہا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں فائر کی گئیں، پولیس کے پاس آنسو گیس شیل کم ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کارکن آگے بڑھے پولیس کے مطابق کارکنوں کی جانب سے ان پر پتھراؤ اور غلیلوں کے ساتھ کنچے بھی مارنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔علاوہ ازیں وفاقی دارالحکومت میں سیکورٹی مزید سخت کردی گئی ، فول پروف سیکورٹی یقینی بنانے کے لیے پاک فوج کے مزید جوان تعینات کردیے گئے ۔ ذرائع کے مطابق پاک فوج نے اسلام آباد میں شاہراہ سری نگر کی مکمل سیکیورٹی بھی سنبھال لی ہے پاک فوج وفاقی دارالحکومت میں کسی بھی طرح کی شرپسندی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی ۔دوسری جانبپی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر مینار پاکستان جانے والے راستے اور شہر میں داخل ہونے والے تمام راستوں کو کنٹینرز رکھ کر مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے جب کہ لاہور میں احتجاج روکنے کے لیے مینار پاکستان پرپانی چھوڑ دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستے درجنوں کنٹینرز لگا کر بند کر دیے گئے ہیں، بابو سابو اور ٹھوکر نیاز بیگ سمیت شاہدرہ پر کنٹینرز لگائے گئے ہیں جب کہ موٹروے کو بھی ٹریفک کے لیے مکمل بند کردیا گیا ہے۔جاتی امرا روڈ پر شریف فیملی کی رہائش گاہ کو جانے والے راستے بھی بند کر دیے گئے ہیں اور اڈا پلاٹ پر مختلف مقامات پر 200 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جب کہ موجود مسلم لیگ (ن) کے آفس ماڈل ٹائون جانے والے راستے بھی بند کردیے گئے۔حکومت نے لاہور، راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کی 9 کمپنیوں کو ہفتے کو ڈیوٹی کے لیے بلایا ہے اور اب صوبائی دارالحکومت میں فوج کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔اسلام آباد کے بعد پنجاب میں بھی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر فوج طلب کرلی گئی جس کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے قریب سے پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا، وکلا اور پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ پی ٹی آئی کارکنان اور وکلا نے عمران خان کی ہدایات پر جی پی او چوک پر احتجاج شروع کیا تو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ اس موقع پر پولیس اور ڈولفن فورس کی بھاری نفری ہائیکورٹ کے باہر موجود تھی۔مینار پاکستان سے بھی پی ٹی آئی کی خاتون ورکر سمیت درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ خاتون ورکر تمام سیکورٹی رکاوٹیں عبور کر کے مینار پاکستان پل پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی جہاں اس نے پی ٹی آئی کا پرچم لہرا دیا۔پی ٹی آئی کے مینار پاکستان پر احتجاج کے دوران پولیس نے پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ سمیت 20 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ سینیٹر عون عباس نے زرتاج گل کو گرفتار کرنے کی تصدیق کر دی ہے، جبکہ پولیس اور وکلا کے درمیان تصادم میں ایک اہلکار زخمی ہوگیا۔لاہورپولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں پولیس نے گھروں میں گھس پر پی ٹی آئی کارکنان کوگرفتارکیا۔پولیس کی جانب سے کارکنان پر تھپڑوں اورمکوں کی بارش بھی کی گئی جبکہ سینیٹر عون عباس نے زرتاج گل کو گرفتار کرنے کی تصدیق کر دی۔لاہور میں ایوان عدل کے باہر سے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 6 سے زائد وکلا کو پولیس نے گرفتار کرلیا، پی ایم جی چوک پر احتجاج اور پتھرائو سے پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگیا، کانسٹیبل بلال کو سر اور آنکھ کے قریب گہرے زخم آئے ہیں۔کانسٹیبل کے زخمی ہونے پر ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے زخمی اہلکار کو فوری اسپتال منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔قبل ازیںپاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں احتجاج کے معاملے پر ہنگامی صورتحال کے پیش نظر وفاق نے صوبوں سے مدد مانگ لی جب کہ اس سلسلے میں سندھ پولیس کی بھاری نفری اسلام آباد روانہ ہوگئی۔ میڈیارپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی درخواست پر سندھ پولیس کے ایک ہزار اہلکار گزشتہ رات اسلام آباد روانہ کیے گئے تاہم ان میں کراچی پولیس کے اہلکار شامل نہیں ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے اسلام آباد میں احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پی ٹی آئی نے آخری تقریر کی اجازت مانگی جو دے دی گئی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق جلسہ ختم کرنے کا اعلان ممکنہ طور پر اعظم سواتی کریں گے۔ بیرسٹر گوہر خیبر پختونخوا ہاؤس میں ملاقات کے بعد اڈیالہ روانہ ہو ئے تھے۔ دوسری جانب لاہور کی قیادت نے اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ وزیر اعلی خیبرپختونخوا ہاؤس ہی میں ہی ہیں، بیرسٹرگوہر کی موجودگی میں وزیر اعلی نے انتظامیہ کومطالبات پیش کردیے ہیں، ہماراسب سے بڑامطالبہ بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین اورقانون کے نام پرہم سے جوزیادتیاں ہورہی ہیں ان کے خاتمے کامطالبہ اور نام نہاد مقدمات کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مطالبات پر انتظامیہ بھی غورکرے گی اورپی ٹی آئی کی کورکمیٹی بھی انتظامیہ کی باتوں پرغورکررہی ہے۔ شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ایک بات واضح ہے کہ عوام ڈی چوک سے جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔قبل ازیںوزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہم یہاں پر پہنچ گئے ہیں، ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرالیا ہے۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم پرامن جماعت نہیں جبکہ ہم پر شدید فائرنگ شروع کردی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم یہاں پر پہنچ گئے ہیں، اپنا احتجاج ریکارڈ کرالیا ہے، ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم پرامن جماعت ہیں۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے مزید کہا کہ اب ہم بانی پی ٹی آئی سے بات کریں گے، اس کے بعد ہمارا کیا لائحہ عمل ہوگا، ہمارا اختیار بانی پی ٹی آئی کے پاس ہے۔دریں اثناء قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرلیا گیا جبکہ سرکاری نشریاتی ادارے نے رپورٹ کیا کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔ ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ علی امین گنڈا پور کے ریاست کے خلاف حملہ آور ہونے پر قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔ذرائع نے دعویٰ کیا کہ علی امین کو خیبر پختونخوا کو حراست میں لے لیا گیا، انہیں خیبر پختونخوا ہاؤس سے حراست میں لیا گیا، تاہم سرکاری ذرائع نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے، رینجرز نے کے پی ہاؤس اسلام آباد کو سیل کر دیا ہے۔علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز علی امین کی گرفتاری کے لیے کے پی ہاؤس گئی ہے، کے پی ہاؤس میں پکڑ دھکڑ جاری ہے، علی امین گنڈاپور سے رابطہ نہیں ہورہا ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے پی کے ہاؤس اسلام آباد پہنچے تھے، جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری کے پی ہاؤس روانہ ہوئی جبکہ قیدی وین بھی خیبر پختونخوا ہاؤس بھجوا دی گئی تھی۔مرکزی ترجمان پاکستان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور عمران خان سے بڑے لیڈر نہیں، اگر انہیں گرفتار کیا بھی جاتا ہے تو احتجاج کو ہرگز ملتوی نہیں کیا جائیگا بلکہ اسے اعظم خان سواتی لیڈ کریں گے، عمران خان پہلے ہی گرفتار ہیں مزید گرفتاریاں کوئی بڑی بات نہیں احتجاج جاری رکھیں گے۔ادھر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے مظاہرے میں شریک 564 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں خیبرپختونخوا پولیس کے 11 سادہ لباس اہلکار بھی شامل ہیں۔ڈی چوک اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ اسلام آباد پر وزیراعلیٰ کی قیادت میں دھاوا بولا گیا اور کوشش کی گئی کہ کوئی جانی نقصان ہو مگر شکر ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کی وجہ سے ان کے ارمان پورے نہیں ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار سادہ کپڑوں میں مظاہرے میں شامل ہوئے، پاکستان میں پہلی بار پولیس کو مظاہرے کیلیے استعمال کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق پولیس نے 564 مظاہرین کو گرفتار کیا جن میں 11 کے پی پولیس کے اہلکار اور 120 افغان باشندے بھی شامل ہیں۔