پیسے کی قیمت گرنا اور زمین کی بڑھنا پاکستان میں رواج ہے ،چیف جسٹس

161

اسلام آباد (صباح نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مستقبل کے معاہدے کو لکھنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے 1400 سال قبل احکامات نازل فرمائے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے حکم پر عمل نہیں کروگے تو نقصان بھی برداشت کروگے، پیسے کی قیمت گرتی ہے اور زمین کی قیمت بڑھتی ہے، یہ پاکستان میں رواج ہے، عدالت اس بات کانوٹس لے سکتی ہے کہ زمین کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور پیسے کی قیمت کم ہو رہی ہے، ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ خریدارمعمولی سی رقم جمع کروا کر دعویٰ دائر کردے اور معاملہ عدالت عظمیٰ تک آئے، عدالتوں کو معاہدے دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں تاہم فریقین کی رضامندی سے معاہدے میں توسیع ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے زمین کی خریداری کے معاملے پر نصیراحمد کی جانب سے خالق زاد اور دیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خریدا تھا، کتنے میں سودا ہوا۔ اس پر درخواست گزارنے بتایا کہ 34 لاکھ فی مرلہ کے حساب سے 14 کنال زمین خریدی تھی۔ 6 اپریل 2017ء کو زمین کی خریداری کے وقت 15 لاکھ روپے ادا کیے جبکہ باقی رقم 6 جولائی 2017ء تک ادا کرنا تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے قرآن پڑھا ہے؟۔ اس پر درخواست گزارنے کہا کہ پڑھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل کے معاہدے کے حوالے سے آیت بتائیں، اللہ تعالیٰ نے 1400سال قبل کیا حکم دیا تھا؟ درخواست گزار نے کہا کہ سورۃ بقرہ میں مستقبل کے معاہدے کو لکھنے کا حکم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے حکم پر عمل نہیں کروگے تو نقصان بھی برداشت کروگے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے قرآن پر عمل کیا اور نہ پاکستان کے قانون پر عمل کیا، 3 عدالتوں نے درخواست گزارکے خلاف فیصلہ دیا ہے، خریدارکا کام صرف پیسے دینا ہوتا ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ 4 کروڑ 67 لاکھ کا سودا تھا، 45 لاکھ روپے ادارکردیے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیسے واپس لے لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باقی پیسے کیوں جمع نہیں کروائے؟ ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ خریدار معمولی سی رقم جمع کروا کر دعویٰ دائر کردے اور معاملہ عدالت عظمیٰ تک آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کو معاہدے دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں تاہم فریقین کی رضامندی سے معاہدے میں توسیع ہوسکتی ہے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔