پاکستانیوں کو اب یونیورسٹی میں بھی سیاسی لڑائی کا سامنا ہے پنجاب یونیورسٹی میں مقرر(Appoint) ہونے والے وائس چانسلر جو لگاتار چوتھی بار وائس چانسلر تعینات ہورہے ہیں۔ نوٹیفکیشن کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اپنا چارج لے چکے تھے۔ ایسا لگتا ہے وہ یونیورسٹی کے گیٹ پر کئی دنوں سے نوٹیفکیشن کا انتظار کر رہے تھے۔ اس تقرر پر گورنر ہاؤس اور وزیر ِ اعلیٰ آفس میں ٹھن گئی۔ اور گورنر صاحب نے ایک پریس کانفرنس کرکے نئے تعینات ہونے والے وائس چانسلر کو کرپٹ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرچ کمیٹی کی سلیکشن ہی غلط تھی اور انہوں نے پیسے لے کر بندے لگائے ہیں۔ جبکہ وزیر ِ اعلیٰ کا مؤقف ہے کہ گورنر صاحب اپنا وائس چانسلر لگوانا چاہتے تھے۔ لیکن اس بات کی گورنر صاحب نے تردید کردی ہے۔
آج کل پنجاب کی پچیس سرکاری جامعات میں کل وقتی وائس چانسلروں کے تقرر کا مسئلہ ہے۔ پنجاب ہائرایجوکیشن (HED) ڈیپارٹمنٹ نے عدالت ِ عظمیٰ کی ہدایت پر سرچ کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہیں جوپچھلی کئی دہائیوں سے پنجاب کی ہائر ایجوکیشن میں کلیدی کردار ادا کرتے آر ہے ہیں۔ ان لوگوں کی خود کی قابلیت کیا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ ہاں البتہ یہ ایک خاص تعلیمی مافیا سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہے سید بابر علی اور ان کی یونیورسٹی لمس (LUMS)۔
سید بابر علی جھنگ کے معروف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے گھرانے نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا کھل کر ساتھ دیا تھا اور بدلے میں جاگیریں اور خطابات پائے تھے۔ سید بابر علی ملک کی معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ جو پیکیجز لمیٹڈ سمیت متعدد بزنس امپائرز کے مالک ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہی لمس (LUMS) یونیورسٹی کے مالک بھی ہیں۔
لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سید صاحب کا پنجاب کی سرکاری جامعات میں پچھلی کئی دہائیوں سے وائس چانسلرز کی تعیناتی میں کلیدی کردار رہا ہے میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں سید صاحب کی بھانجی بیگم عابدہ حسین کو امریکا میں سفیر لگایا تھا۔ کیونکہ اس وقت فرقہ وارانہ فسادات میں ان کی جان کو خطرہ تھا۔ امریکا میں سفیر لگنے کے بعد بیگم عابدہ حسین نے سید بابر علی کو ایک خطیر رقم امریکیوں سے بطور تحفہ دلوائی اور اس رقم سے سید بابر علی نے LUMS کا ادارہ بنایا جوکہ اشرافیہ کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ اس ادارے کے ذریعے سید بابر علی نے ملک کے معروف لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بنا رکھے ہیں۔ جیسے چیف جسٹس بننے کے امیدوار جسٹس منصور علی شاہ لمس میں پڑھاتے رہے ہیں۔ ان اساتذہ کا ماہانہ مشاہرہ ملین میں ہوتا ہے۔ اس لیے لوگ اس ادارے میں بڑے شوق سے پڑھاتے ہیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو انہوں نے پنجاب کے تعلیمی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہر سرچ کمیٹی میں لمس کا ایک اسسٹنٹ پروفیسر لیول کا آدمی بھی شامل ہوتا رہا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر وہ بھی پرائیویٹ یونیورسٹی کا اس کا سرکاری جامعہ کے وائس چانسلرز کی تعیناتی میں شامل ہونا کسی اچھنبے کی بات ہے۔ پنجاب کی کسی جامعہ میں کوئی وائس چانسلر ان کی مرضی کے بغیر نہیں لگ سکتا۔ اور ان لوگوں نے اپنا بندہ لانے کے لیے کبھی کسی میرٹ کی پروا نہیں کی۔ چاہے تعلیم کا کتنا ہی بیڑہ غرق ہو جائے۔ مگر ان کی خوشنودی ضروری ہے۔ انگریزوں کے وفادار خاندان کے چشم و چراغ نے پنجاب کے نظامِ تعلیم کو آکٹوپس کی طرح جکڑ رکھا ہے۔
ابھی یہ ایک مافیا ہی تعلیم کی تباہی کے لیے کافی تھا کہ ایک نئے مافیا کی انٹری ہوتی ہے اور وہ ہے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ان کے بھائی HEC کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیا القیوم۔ ڈاکٹر فرخ میاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران پنجاب میں اقتدار کی مونچھ کا بال بنے رہے۔ اور وہ اپنے بھائی کو جوپروفیسر کے تعلیمی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے تھے کو گجرات یونیورسٹی میں وائس چانسلر لگوا دیا۔ واضح رہے کہ اس وقت ڈاکٹر ضیا القیوم کی صرف دو پبلی کیشنز تھیں۔ اور انہوں نے کبھی کسی کو بھی PhD نہیں کروائی تھی۔
سندھ کی طرح پنجاب میں میرٹ کا قتل جاری ہے یہی نہیں بلکہ اس کے بعد وہ علامہ اقبال یونیورسٹی کے وائس چانسلر لگ گئے۔ اور پھر وہاں سے HEC کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر۔ جہاں ان کے مربی ومہربان کئی سال سے HEC کے چیئر مین ہیں۔ دونوں بھائیوں نے مشاورت سے سرچ کمیٹی کی مرتب کردہ سات وائس چانسلروں کی فہرست وزیر ِ اعلیٰ کے سامنے رکھی تو ان کو بھی تحفظات تھے کیونکہ اس میں زیادہ تر لوگ ان کے ذاتی دوست تھے لیکن اصل جھگڑا تب شروع ہوا جب یہ فہرست گورنر کو جو ان جامعات کے چانسلر بھی ہیں بھیجی گئی تو انہوں نے اس کی منظوری دینے سے صاف انکار کر دیا۔ وزیر ِ اعلیٰ آفس نے 15 دن کے آئینی انتظار کے بعد خود ہی تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔پنجاب کی 13 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کے تقرر کے معاملے پر گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے۔
ذرائع گورنر ہائوس کے مطابق گورنر پنجاب نے وی سیز کے تقرر کی سفارشات مسترد کرکے واپس بھیج دیں جبکہ وزیراعلیٰ کی منظوری سے 13 میں سے 7 وی سی کا تقرر کردیا۔ گورنر کی منظوری کے بغیر 7 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا تقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں پی پی پی، پی ٹی آئی، اور ن لیگ کا فساد بر پا رہے، گورنر پنجاب نے سفارشات مسترد کرتے ہوئے کچھ اعتراضات بھی اٹھائے، وائس چانسلر کے پینل بنانے کا عمل ٹھیک نہیں تھا، دوبارہ جائزہ لیں، وائس چانسلر کے پینل بنانے میں صحت مندانہ مقابلہ دیکھنے میں نہیں آیا، وزیراعلیٰ کی جانب سے پینل بھیجا جاسکتا ہے، سلیکشن نہیں کی جاسکتی۔
گورنر ہائوس نے کہا کہ وائس چانسلر تقرر کرنے کا اختیار گورنر کو حاصل ہے، وائس چانسلر کے پینل بنانے میں شفافیت تھی، کابینہ کی منظوری کے بعد وی سی کی سلیکشن کی گئی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ ہائوس کے ذرائع نے کہا کہ گورنر کا کام صرف دستخط کرنا ہے، سمری واپس نہیں بھیج سکتے، وائس چانسلر کا تقرر وزیراعلیٰ کی منظوری سے قانون کے مطابق ہے۔ علاوہ ازیں پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، پروفیسر شاہد منیر کو وائس چانسلر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور اور پروفیسر عاکف انور کو وی سی یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور تعینات کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پروفیسر احمد شجاع وی سی یونیورسٹی آف گجرات، پروفیسر عنایت اللہ وی سی انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا، پروفیسر عامر اعظم وی سی خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان اور پروفیسر زبیر اقبال کو وی سی بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان تعینات کیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو گورنر یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں اور وہ اپنے وائس چانسلر کو کرپٹ قرار دے چکے ہیں۔ اب اخلاقی لحاظ سے ان کا ان سیٹوں سے چپکے رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن سیاست کے نگارخانے میں اس ملک سے کب کا اخلاق و تہذیب کا جنازہ اْٹھ چکا ہے۔