دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر

332

لبنان میں اسرائیل کے ہاتھوں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت اور اس کے جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر 180 کے قریب میزائل داغے جانے پر مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں ایک خوف اور دہشت کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو بھی شہید کیا تھا جس پر ایران پر بہت دباؤ تھا کہ وہ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دے۔ ایران نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے حکم پر یہ حملہ کیا۔ اس حملے سے اسرائیل کا کوئی بڑا جانی نقصان تو نہیں ہوا پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ ہم نے اسرائیل کے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے اور یہ حملہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کا بدلہ ہے۔ اسرائیل نے بھی موقع ملتے ہی اس حملے پر جوابی کارروائی کیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ، لبنان کے بعد شام پر بھی فضائی حملہ کیا جس پر بشار الاسد کے بھائی میجر جنرل ماہر الاسد سمیت کئی شہری مارے گئے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی یہ کشیدگی ایک چنگاری کی مانند ہے جو کسی بھی وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے امریکی فوج کو صہیونی ریاست کے دفاع کا حکم دیا ہے۔ ایران کی جانب سے میزائل داغے جانے پر اسرائیلی دفاعی نظام نے امریکی فضائیہ کی سینٹرل کمانڈ کے تعاون سے روکا لیکن کئی مقامات پر ایرانی میزائل گرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان میزائل حملوں پر شیلٹرز میں جانے کے لیے اسرائیلیوں میں شدید بھگدڑ مچ گئی اور سیکڑوں افراد اس بھاگ دوڑ میں زخمی بھی ہو گئے جنہیں طبی امداد فراہم کی گئی۔ ادھر حماس کے مجاہدوں نے تل ابیب میں گھس کر آٹھ اسرائیلیوں کو جہنم رسید کیا اور سات اسرائیلی اس حملے میں شدید زخمی بھی ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ کی جانب سے بھی موساد کے ہیڈ کوارٹر پر راکٹ داغے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت پر غم وغصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔

معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک جو آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین پر مسلمان ممالک کو ناٹو طرز کا اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ 57 اسلامی ممالک اپنا اتحاد بنالیں تو ان کی طاقت اور قوت میں اضافہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے آج مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔ 57 اسلامی ممالک کو بھی ناٹو کے اصولوں کے مطابق اپنا اتحاد تشکیل دینا چاہیے اور اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بالکل درست فرمایا اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ امت مسلمہ کے حکمران خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اہل غزہ کی جرأت اور بہادری کو سلام کہ گزشتہ ایک سال سے دنیا کی سپر طاقت امریکا، برطانیہ اور ان کی ناجائز اولاد اسرائیل کا تن تنہا مقابلہ کررہے ہیں اور انہوں نے اسرائیل کو ناکوں سے بنے چبوا دیے ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت سے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت میں اضافہ ہوگا خطے میں بڑی جنگ ناگریز ہوچکی ہے عراق شام میں ایران کے حمایت یافتہ عسکری ونگ اور زیادہ متحرک ہورہے ہیں۔ دوسری جانب مصر سے لیکر عراق تک گریٹر اسرائیل صہیونیوں کا عقیدہ بن چکا ہے پوری دنیا کا اہم ترین مسئلہ غزہ، لبنان اور یمن پر اسرائیلی جارحیت ہے۔ اسرائیل دہشت گردی کرتے آبادیوں، معصوم بچوں، خواتین اور اسپتالوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لبنان میں فوجیں داخل ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ غزہ ایک قید خانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 45 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کیا جاچکا ہے۔ اسکولوں، بستیوں، مساجد، گرجا گھروں کو اسرائیل بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں نعشیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے ظلم اور درندگی کے آگے انسانیت سسک رہی ہے۔ ادھر پاسداران انقلاب نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے اب جوابی کارروائی کی تو ایران مزید حملے کرے گا اور یہ پاسداران انقلاب کی پہلی لہر تھی۔ اسرائیلی فوجی مراکز اور تنصیبات ہمارے اہداف تھے۔ اسرائیل نے دوبارہ غلطی کی تو دوسری لہر بھی آئے گی جو زیادہ تباہ کن ہوگی۔

بلاشبہ امریکا کی سرپرستی نے اسرائیل کو ایک جنونی جنگلی بھینسا بنا دیا ہے اور وہ اسرائیلی ریاست کے قیام اور اس کے توسیعی منصوبے کے قیام کے لیے پاگل ہوچکا ہے۔ غزہ سمیت جس طرح سے لبنان یمن میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اس سے انسانیت بھی شرمسار ہوگئی ہے۔ نہتے فلسطینیوں کے قتل عام پر انسانی حقوق کے چمپئن خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہوش کہ ناخن لیں۔ اسرائیل ایک ایک کر کے مسلم ممالک پر حملہ آور ہے۔ عرب ممالک سمیت پوری مسلم دنیا کو اب بے حسی کے اس طوق کو اُتار پھینکنا ہوگا اور اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے تمام اسرائیلی اور مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ تیسری عالمی جنگ ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ دنیا کو اس جنگ سے تباہی وبربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات دنیا کو ایک جہنم کی جانب دھکیل رہی ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جنگ دنیا کو ایک قبرستان میں تبدیل کردے گی۔