اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) اسرائیل امریکا اور یورپ کی شہ پر ہی فلسطینی مسلمانوں کو قتل کر رہا ہے‘ دونوں صیہونی ریاست کو اسلحہ اور گولا بارود مہیا کر رہے ہیں‘ جوبائیڈن کا اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ دھوکا ہے‘ مسئلہ کشمیر و فلسطین مذاکرات سے حل ہونے والے نہیں‘ امت مسلمہ کا اتحاد اور جسد واحد بننا ہی دشمن کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے رہنما لیاقت بلوچ، کل جماعتی حریت کانفرنس (گیلانی) کے رہنما محمد فاروق رحمانی،تجزیہ کار مظہر طفیل، عدالت عظمیٰ کے سینئر وکیل حسنین کاظمی، پی ایف یو جے (ڈیموکریٹس) کے رہنما محسن خان جنجوعہ اورپاکستان بزنس فورم کے مرکزی عہدیدار اور تاجر رہنما سید عمران بخاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا اسرائیل امریکا اور مغربی ممالک کی شہ کے بغیر غزہ میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرسکتا تھا؟ ‘‘ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ لبنان میں تشدد سے خطے کے عدم استحکام میں اضافہ ہوگا، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی مہم جوئی کی شدید مذمت کرتے ہیں‘ شہری آبادیوں پر اس قسم کے حملے بین الاقوامی قوانین کی پامالی ہے‘ صیہونیحملوں کے ذریعے عالمی قوانین کی پامالی تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے، اسرائیلی فوج کئی روز سے لبنان کی خودمختاری کی ناقابل قبول حد تک خلاف ورزی کر رہی ہے‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں سے باز رکھے، سلامتی کونسل مشرق وسطیٰ میں امن بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ امریکا اوریورپی قوتوں نے اسرائیل کو مسلمانوں کے قتل عام کا کھلا لائسنس دے رکھا ہے‘ عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، دنیا بھر کے ممالک میں مسلسل احتجاجی مظاہرے اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام سے روکنے میں ناکام ہیں‘ امت مسلمہ کا اتحاد اور جسد واحد بننا ہی دشمن کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے‘ غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جارحیت جاری ہے، غزہ میں ایک سال سے اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے، اب اسرائیل نے اپنی ظالمانہ فوجی کارروائیوں کا محور ایک بار پھر لبنان کو بنا لیا ہے‘ لبنان کی شہری آبادی پر مسلسل بمباری، گولا باری کے نتیجے میں روزانہ درجنوں شہادتیں ہو رہی ہیں‘ عالم اسلام اور عالمی برادری حسب دستور بے حس اور خاموش تماشائی ہے ‘ لبنان میں پیجر حملوں اور بعد ازاں حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد اسرائیل نے شام اور یمن پر بھی حملے تیز کردیے ہیں‘ ایسے میں کوئی مسلم ملک اگر خود کو اس صیہونی و مغربی گٹھ جوڑ سے محفوظ سمجھتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے‘ اسرائیل کا مقصد ایک بڑی سلطنت کا قیام ہے اور وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو ختم کرنا چاہتا ہے‘ حسن نصر اللہ، اسماعیل ہنیہ اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد، شام میں ایرانی سفارت خانہ پر کچھ عرصہ قبل میزائل حملے میں سفارت کاروں، کمانڈروں کی شہادتیں، عراق میں ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی اور قبل ازیں حماس کے بانی رہنما احمد یاسین کی ٹارگٹ کلنگ اور درجنوں دیگر فلسطینی کمانڈروں کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا، غزہ میں گزشتہ ایک سال سے جاری فلسطینیوں کے قتل عام کے نتیجے میں 42 ہزار سے زاید معصوم نہتے فلسطینی بچے، خواتین، بزرگ جامِ شہادت نوش کرچکے، ایک لاکھ سے زاید زخمی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے‘ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی اپیلیں اور قراردادیں اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی ہیں۔ نیتن یاہو دھڑلے سے فلسطینیوں کی نسل کشی مہم کو جاری رکھنے اور کسی صورت جنگ بندی نہ کرنے کی ضِد پر قائم ہے اور پوری دنیا اس کی اِس ضِد اور ہٹ دھرمی کے آگے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جو معصوم فلسطینیوں، غزہ کے محصور اور مجبور عوام کو صیہونی ظلم و جبر سے نجات دِلاسکے‘ اِسی طرح بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم کیے ہوئے ہے‘ عظیم بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی بھارتی جیل میں انتقال کرگئے‘ یاسین ملک تہاڑ جیل میں ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اِسی طرح دیگر کشمیری حریت رہنمائوں پر مقبوضہ کشمیر میں عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے،ایسے میں امت کا فرض ہے کہ اپنے دیگر معمولاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے فلسطینی، کشمیری بھائیوں، بہنوں، بچوں کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔ مظہر طفیل نے کہا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت ہی دراصل امریکا اور یورپ کا اصلبھیانک چہرہ ہے‘ افغانستان کے بعد لیبیا سے شروع ہونے والی امریکی جارحیت برھتی ہوئی جب عراق اور عرب سپرنگ تک پہنچی تو اس میں بھی پس پشت یہی یورپ اور اسرائیل مکمل طور پر شامل تھے اس وقت مسلم ممالک نے اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ نہ کیا تو اس کے بعد یہود و نصاریٰ کی مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں میں تشدد اور جارحیت مزیدتیزہوگی جس سے مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہوگی‘ اگر امت مسلمہ امریکی یلغار کے آغاز میں ہی متحد ہوکر یورپ امریکا اور اسرائیل کوللکارتی اور کسی بھی مسلم ملک کے خلاف ان کی جارحیت کے جواب میں ان ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرتی تو یقیناً آج حالات مختلف ہوتے۔حسنین کاظمی نے کہا کہ دہشت گرد ریاست اسرائیل نے یمن پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں‘ جنوبی بیروت پر حملے میں حسن نصر اللہ کے علاوہ حزب اللہ کی20 سینئر شخصیات بھی شہید ہوئیں‘ حسن نصراللہ، علی کرکی اور نبیل قاووق سمیت متعدد شخصیات کی شہادت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ محسن خان جنجوعہ نے کہا کہ لبنان میں حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد اسرائیل امن نہیں دیکھے گا‘ اسرائیل کی اس کارروائی نے صیہونی حکومت کے زوال کو تیز کر دیا ہے‘ امریکا اس جرم میں برابر کا شریک ہے‘ لبنان میں جو کچھ ہوا وہ دہشت گردانہ حملہ تھا، حسن نصراللہ کے قتل کی مذمت کرتے ہیں‘ امریکا اس میں ملوث ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں امریکا نے اسرائیل کی شکل میں مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ایک پراکسی تیار کی ہوئی ہے جس کے ذریعے وہ پورے خطے میں بد امنی پھیلا رہا ہے لیکن اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کا کردار افسوس ناک ہے‘ ناجائز صیہونی ریاست کی کارروائیوں سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ یہ مسئلہ بیانات اور مذاکرات سے حل ہونے والا نہیں ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک کو اکٹھے ہو کر میدانِ عمل میں اترنا پڑے گا‘ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کو اسلحہ اور گولا بارود مہیا کر رہے ہیں‘ اس صورتحال میں مسلم ممالک کا خاموش تماشائی بنے رہنا ایک جرم ہے۔ سید عمران بخاری نے کہا کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں جس طرح جنگ کو بڑھا رہا ہے اس صورتحال کو عالمی طاقتوں اور اداروں، بالخصوص اقوام متحدہ کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے‘ اس معاملے میں عالمی طاقتوں کا خاموش رہنا اسرائیل کو کرہ ارض کی تباہی کے لیے دعوت دینے کے مترادف ہے‘ اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن ہے‘ مسلمانوں کی بقا کے لیے اب مسلم دنیا کو آگے آنا ہوگا‘ اگر اب بھی مصلحت کا لبادہ نہ اتارا گیا تو ایک ایک کر کے سب اپنی تباہی کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ الحادی قوتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکی ہیں‘ اسرائیل امریکا اور یورپ کا بغل بچہ ہے‘ اگر یہ ممالک اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں تو اسرائیل کبھی بھی اتنی دہشت گردی کی ہمت نہیں کر سکتا‘ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے لبنان میں زمینی فوجی آپریشن کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے لبنان میں فوری جنگ بندی کا کہہ دیا۔ اس سے پہلے امریکی اخبار نے خبر دی تھی کہ اسرائیل بہت جلد لبنان میں زمینی آپریشن کرسکتا ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے امریکا کو لبنان میں اپنے محدود زمینی آپریشن کی پلاننگ سے آگاہ کردیا ہے‘ اسرائیل جس طرح جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ اس کے بعد عالمی اداروں کا وجود بے معنی ہو کر رہ گیا ہے‘ اگر جنگی جرائم پر اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی تو اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ اسرائیل کے ہاتھوں انسانی المیے کو روکنے کے لیے اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔