تل ابیب: تین دن قبل ایران نے ایک رات میں اسرائیل پر 200 سے زائد سپر سونک بیلسٹک میزائل داغے۔ اسرائیل میں ان میزائلوں سے خاصی تباہی پھیلی ہے۔ کئی عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔ نیواٹم کی ایئر بیس پر جدید ترین F-35 لڑاکا طیاروں کو رکھنے کے لیے استعمال ہونے لے ہینگر کی چھت میں ایک میزائل لگنے سے خاصا بڑا سُوراخ ہوگیا۔
ایران نے میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے غیر معمولی پیش رفت یقینی بنائی ہے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے حافظے میں ہوگی کہ کسی زمانے میں ایران اور اسرائیل نے میزائل بنانے کے حوالے سے اشتراکِ عمل کیا تھا۔ یہ 1970 کے عشرے کی بات ہے۔ تب ایران میں شاہ رضا پہلوی کی حکومت تھی۔ وہ ایران لبرل تھا اور اسرائیل سے تعلقات کا حامل بھی۔ ایران اور اسرائیل نے جس پراجیکٹ پر مل کر کام کیا تھا اُس کا نام تھا پراجیکٹ فلاور جس کے تحت زمین سے زمین پر مار کرنے والے دور مار میزائل تیار کیے جانے تھے اور اہم تر بات یہ تھی کہ یہ میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کے لیے بھی استعمال کیے جانے تھے۔
آج ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے کٹر دشمن ہیں مگر کبھی وہ ایک دوسرے کے پارٹنر تھے اور کئی معاملات میں مل کر کام کرتے تھے۔
پراجیکٹ فلاور خفیہ منصوبہ تھا۔ کئی ارب ڈالر کے اس خفیہ منصوبے کا بنیادی مقصد انتہائی طاقتور میزائل تیار کرنے کی مہارت یقینی بنانا تھا۔ مختصر مدت کے لیے ہی سہی، دونوں ملک ایک دوسرے کے خاصے قریب آگئے تھے۔ یہ بات نیو یارک ٹائمز نے 1986 میں اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتائی تھی۔
محمد رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں ایران کو ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ وہ تیل کے غیر معمولی ذخائر کا حامل تھا۔ تیل کی برآمد سے اس کی معیشت کو خاصا استحکام مل چکا تھا۔ ہتھیاروں کی کمی دور کرنے کے لیے اس نے تیل کی دولت کو عمدگی سے استعمال کرنا چاہا۔ رضا شاہ پہلوی نے 1977 میں پراجیکٹ فلاور شروع کروایا تاکہ ایران میزائل سمیت جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار مہارت حاصل کرے۔ تب یزاک رابن اسرائیل کے وزیرِاعظم تھے۔
رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران اور اسرائیل کے تعلقات خاصے خوش گوار رہے۔ دونوں نے کئی شعبوں میں اشتراکِ عمل کیا۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ تب اسٹریٹجک معاملات کی نوعیت نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ ایران اپنے اسلحہ خانے کو جدت سے ہم کنار کرنا چاہتا تھا تاکہ علاقائی سطح پر واضح اور فیصلہ کن حیثیت میں ابھرے۔ اسرائیل اُس کے لیے ایک اچھا پارٹنر تھا۔ وہ پڑوسی بھی تھا۔ یعنی جدید ترین ہتھیار تیار کرنے کے لیے ایران کو زیادہ دور بھی نہیں جانا تھا۔
جب عرب دنیا نے تیل کی سپلائی روک دی تھی تب اسرائیل کو تیل کی ضرورت پوری کرنے میں ایران نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ایرانی تیل کی مدد سے ایران میں صنعتیں بھی چلتی رہیں اور سیکیورٹی کے معاملات بھی درست رہے۔ ایسے میں دونوں ملکوں نے 6 ایسے معاہدے کیے جن کا مقصد تیل کے بدلے ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان کی سپلائی یقینی بنانا تھا۔ میزائل بنانے کا پروگرام آپریشن فلاور ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا تھا۔ یہ بھی اِن 6 معاہدوں کا حصہ تھا۔
اسرائیل نے ایران کی خفیہ پولیس ساوک کی تربیت اور مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران ایران کو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی طرف سے اچھی خاصی معاونت حاصل رہی۔
اسرائیل کی وزارتِ دفاع کے عہدیدار یاکوف شیپیرو نے بتایا کہ ایران میں ہمیں ایسے رکھا جاتا تھا جیسے ہم بادشاہ ہوں۔ اگر ایران سے تعلقات قائم نہ ہوئے ہوتے تو ہم آج اپنے اسلحہ خانے کو اس قدر مضبوط بنانے کے لیے درکار مالیاتی وسائل کہیں سے بھی حاصل نہ کر پاتے۔ یاکوف شیپیرو نے ایران سے مذاکرات میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ بات اسرائیلی مصنف رانین برگمین نے اپنی کتاب دی سیکریٹ وار وِدھ ایران میں بیان کی ہے۔
امریکی سیاسیات دان گودت بہجت نے 2019 کے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا کہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے اچانک دفاعی اخراجات بڑھادیے۔ ایرانی حکومت زیادہ سے زیادہ ہتھیار جلد از جلد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی عسکری صلاحیتوں کو غیر معمولی توسیع دینا چاہتی تھی۔ اسلحہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اسلحہ سازی میں مہارت بھی حاصل کرنا چاہتی تھی۔
1978 میں ایران نے جدید ترین میزائلوں کے لیے 26 کروڑ ڈالر کی ڈاؤن پیمنٹ بھی کی۔ یہ ادائیگی تیل کی شکل میں تھی۔ اس کے بعد ایرانی ماہرین نے وسطی ایران میں سرجان کے مقام پر کام بھی شروع کردیا تھا۔ ایک میزائل کا پے لوڈ 750 کلو گرام طے کیا گیا تھا اور رینج 300 کلو میٹر طے کی گئی تھی۔ ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت والے معاملے پر کام نہیں ہوا کیونکہ اسرائیل کو اس بات کا خوف تھا کہ کل کو ایران کی یہ مہارت خود اسرائیلی سرزمین کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ بہر کیف، ایران نے میزائل تیار کرکے اُن کی آزمائش بھی شروع کردی تھی۔
1979 میں ایران میں سب کچھ بدل گیا۔ رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ آیت اللہ خمینی نے فرانس سے وطن واپس آکر انقلاب کی قیادت کی اور ملک راتوں رات کچھ کا کچھ ہوگیا۔ اسرائیل سے اشتراکِ عمل کی گنجائش ہی نہ رہی۔ یوں پراجیکٹ فلاور بے موت مرگیا۔