انسانی تاریخ کے سارے انقلابات کی باگ ڈور خود اللہ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے قوانین کے مطابق اِدھر سے سلطنت چھینتا ہے، اْدھر سونپتا ہے، ایک طرف عزت و غلبہ عطا کر رہا ہوتا ہے، دوسری طرف سے عزت و غلبہ کے عطیے واپس لے رہا ہوتا ہے، ابھی رات میں سے دن کو نکال دِکھاتا ہے، ابھی دن میں سے رات کو برآمد کر لیتا ہے، وہ اپنی حکمت کے تحت زندہ طاقتوں کو موت بھی دیتا ہے اور مْردہ قوتوں کا احیا بھی کرتا ہے… وہ اپنے خزائنِ رزق میں سے فرد یا گروہ پر بے حساب بارانِ رحمت کرتا ہے اور جس کا حصہ چاہتا ہے سکیڑ دیتا ہے۔
یہ آیت (اٰل عمرٰن: 26) نبیؐ کے رفقا کو مشکل ترین مراحل میں سے گزرتے ہوئے بشارت دینے آئی تھی اور اِس میں درحقیقت آنے والے انقلاب کی صبح کے ظہور کا مڑدہ پنہاں تھا۔ اس نے اہلِ ایمان کو یہ اشارہ دیا کہ اللہ تعالیٰ مقررہ وقت کے آتے ہی جب سلطنت کی باگ ڈور نااہلوں سے چھین کر تم کو دینے پر آئے گا تو ان لوگوں کی طاقتیں اس کے فیصلے میں حائل نہ ہوسکیں گی، وہ جب تمھارے غلبے کے لیے اور تمھارے مخالفین کی ذلت کے لیے حکم صادر کرے گا تو اس حکم کو تلواروں اور نیزوں کی کثرت نہ ٹال سکے گی، اور جب زندہ اقتداروں کے لیے موت کا پیغام دے گا اور تم کو نئی زندگی کا سربراہ کار بنانے کا آخری فرمان نافذ کر دے گا تو کسی کی دولت و امارت اس کے آڑے نہ آسکے گی، وہ جب تمھارے حصے میں کامرانی کی صبح مقدر کر دے گا اور تمھاری مزاحمت کرنے والوں کی جھولی میں نومیدی کی رات ڈال دے گا تو اس انقلاب احوال کو ٹالنا کسی کے بس میں نہ ہوگا… یہ سارے اختیارات خود اللہ ہی کے قبضے میں ہیں!…۔ پس بندوں کے عارضی اقتدار کے ٹھاٹھ بھاٹھ سے مرعوب ہونے والوں کو اپنی توجہ اس اصل مختارِکار کی طرف منعطف کرنی چاہیے جس نے تِلکَ الاَیَّامْ نْدَاوِلْھَا بَینَ النَّاسِ کا دعویٰ کیا ہے، اس سے معاملہ درست کرنا چاہیے اور اس کے قوانین کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے، پھر بندوں کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو دین حق کی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے تمھارے آڑے آسکے۔
پس لوگوں کو چاہیے کہ وہ اگر واقعی اسلام کے نظام کو قائم کرنے کے حق میں ہیں تو تْھڑدلے پن کو ختم کر دیں اور جھوٹے اقتداروں کی مرعوبیت سے باہر نکلیں اور مایوس ہوکر بیٹھنے کے بجاے اللہ کے ان کم سے کم مطالبات کو پورا کریں جو ایک انقلابِ حق کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں!