فروعی مسائل اور علما کی ذمے داری

307

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ غالباً وہ پہلے انسان ہیں جو امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے ایک مشہور شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ’’دینی معاملات کو کس نے خراب اور فاسد کیا ہے، سواے حکمرانوں اور علما کے‘‘۔ گویا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بالخصوص اور انسانی معاشرے میں بالعموم جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو دو طبقوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس طبقے کی وجہ سے جو کسی ملک میں کسی نہ کسی حیثیت میں حکمرانی یا ذمے داری کے منصب پر فائز ہوتا ہے، اور دوسرا علماے کرام جس سے مراد صرف علماے دین نہیں بلکہ معاشرے کے وہ تمام لوگ ہیں جو کسی بھی اعتبار سے علمی و فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں۔ گویا اْمت یا قوم کے سیاسی، فکری اور دینی قائدین اگر اچھے ہوں اور درست راستے پر گامزن ہوں تو پھر اْمت درست راستے پر گامزن رہتی ہے، اور اگر یہ طبقے راہِ راست سے ہٹ جائیں تو بالآخر اْمت بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے۔

یہ وہی چیز ہے جس کو ایک حدیث میں نبی اکرمؐ نے یوں بیان فرمایا: ’’تمھارے بہترین ائمہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں، تم ان کے لیے دعاے خیر کرتے ہو وہ تمھارے لیے دعاے خیر کرتے ہیں، اور تمھارے بدترین ائمہ وہ ہیں کہ تم ان پر لعنتیں بھیجو وہ تم پر لعنتیں بھیجیں، وہ تم سے نفرت کریں، تم ان سے نفرت کرو‘‘۔ یہاں بھی ائمہ کا لفظ کسی خاص شعبے کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ ہر اس فرد کے لیے استعمال ہوا ہے جو اْمت میں قیادت اور امامت کا مقام رکھتا ہے۔ وہ تعلیم میں قیادت ہو، امامت ہو، مسجد کی امامت ہو، فکر کی امامت ہو، سیاست کی امامت ہو یا کسی بھی طرح کی امامت۔ اگر تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بہترین لوگ ہیں جو اْمت سے اخلاص رکھتے ہیں، اْمت ان کے اخلاص کی قدر کرتی ہے، اس کی وجہ سے ان کے لیے دعاگو ہے، ان سے محبت کرتی ہے اور وہ اْمت سے محبت کرتے ہیں، تو پھر وہ بہترین قیادت ہے۔

عصرِحاضر اور علما کی ذمے داری
ان دونوں اقوال کی روشنی میں جن میں سے ایک حدیث پاک ہے اور ایک عظیم محدث اور امام اسلام کا قول ہے، دیکھا جائے تو ائمہ کرام، خصوصاً دینی ائمہ کرام کی ذمے داری نہایت ہی نازک اور بھاری ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر دورِ جدید میں یہ ذمے داری بہت زیادہ نازک ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مغرب کی طرف سے بڑھتا ہوا سیکولرزم ہے جو ایک طوفان کی طرح دنیاے اسلام کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ مغرب نے اپنے تاریک ادوار کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد سیکولرزم کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھا، اور یہ محسوس کیا کہ ان کے مصائب اور مشکلات کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذہب اور سیاست یکجا تھے۔ ان کا مذہب اور ان کی سیاست یکجا نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں کو الگ الگ کردیا۔ اس علیحدگی کے بعد وہ بڑی حد تک ان مصائب سے آزاد ہوگئے جن کا وہ ایک ہزار سال شکار رہے، لیکن کچھ نئے مصائب کا بھی شکار ہوگئے۔

مشکل یہ ہوئی کہ اگر یہ چیز مغرب تک محدود رہتی تو ہمارے لیے زیادہ قابلِ اعتراض بات نہیں تھی۔ ایک علمی سوال تھا کہ ان کی تاریخ میں ایسا کیوں ہوا؟ اصل خرابی اس لیے پیدا ہو رہی ہے کہ وہ نتائج جو مغرب میں ان کی خاص تاریخ اور خاص ماحول کے پیداوار تھے، مغرب کے موجودہ سیاسی اثر ورسوخ، اس کی عسکری طاقت، اس کی اقتصادی خوش حالی، اور دنیوی معاملات میں ان کے کنٹرول کی وجہ سے دنیاے اسلام میں درآمد بلکہ مسلط کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ نہ دنیاے اسلام کی تاریخ ریاست اور مذہب میں وہ کش مکش رہی ہے جو یورپ میں ایک ہزار سال موجود رہی، نہ وہ قباحتیں دنیاے اسلام میں پیدا ہوئیں، نہ یہاں وہ احتسابی عدالتی نظام تھا جس نے سیکڑوں ہزاروں نہیں، لاکھوں انسانوں کو مذہب کے نام پر موت کے گھاٹ اْتارا، نہ یہاں عقل و شعور کی ہرکاوش کا یہ کہہ کر انکار کیا گیا کہ فلاں مذہبی پیشوا اور فلاں مذہبی ادارہ اس سے اتفاق نہیں کرتا، نہ لوگوں کو اس لیے سزاے موت دی گئی ہے کہ انھوں نے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کوئی سائنسی نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سارے معاملات دنیاے اسلام میں نہیں تھے۔

دنیاے اسلام میں تو پہلے دن سے عقل اور وحی کے درمیان اتنی ہم آہنگی، یکسانیت اور قرب تھا کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ عقل اور وحی یا دین اور دنیا یا مذہب اور غیرمذہب دو متعارض کیمپوں میں تقسیم ہوئے ہوں۔ ہمارے ہاں تو وہ لوگ بھی جو مذہبی فکر کے ترجمان نہیں سمجھے جاتے، ایک طرح سے اسلامی فکر کے دائرے کی حدود میں رہے، کبھی حدود سے باہر سمجھے گئے، اور کبھی حدود کے اندر خیال کیے گئے۔ خالص فلسفی، ابن سینا اور فارابی جیسے لوگوں کی مثال دیکھیے کہ کسی نے انھیں اسلامی فکر کا مسلم نمایندہ قرار نہیں دیا اور وہ فلاسفہ کے نمایندہ رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی تاریخ میں جو بہترین مذہب کے علَم بردار تھے، یہ لوگ ان سے زیادہ مذہبی تھے تو غلط نہ ہوگا۔ یورپ کی تاریخ میں مذہب کے جو بہترین نمایندے رہے ہیں، مثلاً سینٹ نامس کناس کہ جن کو مسیحیت میں عیسیٰ علیہ السلام اور سینٹ پال کے بعد تیسرا بڑا مجدد جانا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ یہ لوگ مذہبی اور دینی خیالات سے قریب تر تھے۔ انھوں نے جس طرح عقل اور دین کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، جس طرح سے دینی عقائد اور دینی تصورات کو عقلیات کی زبان میں کامیابی سے بیان کیا، ان کی مثالیں یورپ کی مذہبی تاریخ میں نہیں ملتیں۔