مسجد اسلامی معاشرے کا نشانِ امتیاز ہیں۔ اسلام نے زندگی کے مختلف امور و معاملات کو اجتماعی طور سے انجام دینے کا جو حکم دیا ہے، مساجد میں نماز باجماعت کی صورت میں اس کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مخصوص مقامات ہیں، اس لیے وہاں کے ماحول کو پْرسکون اور روح پرور بنائے رکھنا ضروری ہے۔ اسی بنا پر وہاں ایسے کام کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جن سے سکون میں خلل آئے، شور وشغب ہو، لوگ اکٹھا ہوکر اِدھر اْدھر کی باتیں کریں اور نماز پڑھنے والے ڈسٹرب ہوں۔ اسی مصلحت سے مسجد میں خرید وفروخت کے کام ممنوع ہیں۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں کسی شخص کو خریدو فروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمھارے کاروبار میں نفع نہ کرے‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع)
اسی طرح مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کسی گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا ہے، وہ کہے: ’’اللہ کرے وہ چیز تمھیں واپس نہ ملے، کیوں کہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں‘‘۔ (مسلم، کتاب المساجد، اسے ابودائود، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابوعوانہ نے بھی روایت کیا ہے)
ایک مرتبہ ایک شخص کا اْونٹ کھو گیا۔ اس نے مسجد میں ا س کا اعلان کردیا۔ آپؐ نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: ’’مسجدیں تو مخصوص کام (عبادتِ الٰہی) کے لیے بنائی گئی ہیں‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد)
اس بنا پر ہر ایسے کام سے بچنا چاہیے جس سے نمازیوں کے سکون و انہماک میں خلل آئے، ان کا ذہن بٹے اور مسجد کا ماحول متاثر ہو۔ دوسری جانب احادیث میں بچوں کی ابتداے عمر ہی سے دینی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ نماز کی فرضیت اگرچہ بلوغ کے بعد ہے، لیکن اللہ کے رسولؐ نے تاکید فرمائی ہے کہ اس سے قبل ہی ان میں نماز کا شوق پیدا کیا جائے اور ان سے نماز پڑھوائی جائے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہوجائیں (اور نماز نہ پڑھیں) تو انھیں مارو‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ)
رسولؐ سے ثابت ہے کہ آپ نے مختلف مواقع پر نماز پڑھی تو اپنے ساتھ بچوں کو شریک کیا۔ سیدنا انسؓ، جن کی عمر ہجرتِ نبوی کے وقت دس سال تھی، بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ نے ایک مرتبہ میرے گھر پر نماز پڑھی تو میں اور ایک دوسرا لڑکا آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الاذان۔ یہ حدیث مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)
بچوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انھیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کرائی جائیں، نماز کے اوراد و کلمات حفظ کرائے جائیں، نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ گھر پر نماز پڑھی جائے تو انھیں شریکِ نماز کیا جائے اور انھیں اپنے ساتھ مسجد بھی لے جایا جائے، تاکہ وہ ابتداے عمر ہی سے مسجد کے آداب سے واقف ہوں اور انھیں باجماعت نماز ادا کرنے کی رغبت ہو۔ عہدِ نبوی میں ہر عمر کے بچے مسجد نبوی میں جایا کرتے تھے۔ رسولؐ کے نواسوں سیدنا حسن اور سیدنا حسینؓ کی عمریں آپؐ کی وفات کے وقت سات آٹھ سال تھیں۔ متعدد روایات میں صراحت ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات میں مسجد نبوی میں جایا کرتے تھے اور بسا اوقات ان کی وجہ سے بہ ظاہر آپؐ کی نماز میں خلل واقع ہوتا تھا، لیکن کبھی آپؐ نے ان کی سرزنش نہیں فرمائی اور انھیں مسجد میں آنے سے نہیں روکا۔
سیدنا ابوقتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز لمبی کروں، پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز مختصر کردیتا ہوں کہ کہیں لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بن جائے‘‘۔
اْوپر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے ماحول کو پْرسکون بنائے رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگرچہ بچوں کے مسجد میں آنے کی وجہ سے کچھ خلل واقع ہوتا ہے اور نمازیوں کا انہماک متاثر ہوتا ہے، لیکن زیادہ بڑی مصلحت کی بنا پر اس خلل کو گوارا کرنا چاہیے۔ وہ مصلحت یہ ہے کہ ان کے اندر نماز کی ترغیب پیدا کی جائے اور انھیں اس کا عادی بنایا جائے۔
بعض حضرات بچوں کو مسجد میں لانے سے روکنے کے لیے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں کو دْور رکھو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ باب یکرہ فی المساجد) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ زوائد میں ہے کہ ’’اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی حارث بن نبہان ہے، جس کے ضعف پر ناقدینِ حدیث کا اتفاق ہے‘‘۔ عصرِ حاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں نمازِ باجماعت میں پہلے مردوں کی صفیں ہوتی تھیں، پھر بچوں کی۔ سیدنا ابومالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ مردوں کو آگے کھڑا کرتے تھے اور ان کے پیچھے بچوں کو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ۔ اس روایت کو اس کے ایک راوی شہر بن خوشب کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے ضعیف سنن ابی داؤد، للالبانی، روایت 335)
بعض مواقع پر آپؐ نے نماز پڑھی اور وہاں صرف بچے ہوتے تو اگر ایک بچہ تھا تو آپؐ نے اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا اور اگر دو بچے ہوئے تو انھیں اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ اس سے یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کی صفیں مردوں کے پیچھے بنائی جانی چاہییں، البتہ وقتِ ضرورت انھیں بڑوں کے ساتھ بھی، درمیان یا کنارے کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ علامہ البانیؒ سنن ابی داؤد کی درج بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کرنے کی کوئی دلیل اس حدیث کے علاوہ مجھے نہیں ملی، اور یہ حدیث ناقابلِ حجت ہے۔ اس لیے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جب کہ صف میں وسعت بھی ہو‘‘۔ (فقہ الحدیث)
بچوں کے، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان میں سنجیدگی آئے گی اور وہ شرارتیں کم کریں گے۔ مناسب یہ ہے کہ جماعت کھڑی ہونے کے وقت بڑوں کے پیچھے بچوں کی صف بنائی جائے۔ پھر نماز شروع ہونے کے بعد جو بڑے لوگ جماعت میں شامل ہوں، وہ بچوں کو کھینچ کر پیچھے نہ کریں، بلکہ ان ہی کی صف میں شامل ہوجائیں۔
مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ پھٹکار کرنے، یا ان کی پٹائی کرنے کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ آج کے دور میں دین سے دْوری عام ہے۔ بچے خاصے بڑے ہوجاتے ہیں، پھر بھی نہ ان میں نماز پڑھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، نہ ان کو نماز پڑھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ جو بچے مسجد میں آتے ہیں، اندیشہ ہے کہ ان کے ساتھ اختیار کیا جانے والا درشت رویّہ کہیں انھیں مسجد اور نماز سے دْور نہ کردے۔ عموماً شرارت کرنے والے بچے دو چار ہی ہوتے ہیں، لیکن صف میں موجود تمام بچوں کو ڈانٹ سہنی پڑتی ہے۔ اس کے بجاے انھیں سمجھانے بجھانے کا رویّہ اپنانا چاہیے۔
آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ دین کی بنیادی قدریں ابتدا ہی سے ان کے ذہن نشین کریں۔ مسجد کی کیا اہمیت ہے؟ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟ نماز میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس کی ادائی میں کتنی سنجیدگی اور سکون ملحوظ رکھنا چاہیے، یہ باتیں بچوں کو سمجھائی جائیں۔ اس سے اْمید ہے کہ مسجدوں میں بچوں کی موجودگی سے وہ شوروہنگامہ اور اودھم نہیں ہوگا، جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔