ایران نے لبنان میں اپنے اتحادیوں کے خلاف اسرائیل کی کارروائیوں کے ردِ عمل میں منگل کو اسرائیل پر بیک وقت کئی بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔ اس حملے کو ایران کی عسکری قوت کا بڑا مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے جس پر مغربی دنیا تشویش کا اظہار کرتی آئی ہے۔ میزائل داغنے کی یہ کارروائی رواں برس اپریل میں پہلی بار اسرائیل پر ایران کے براہ راست حملے کے 5ماہ بعد کی گئی ہے۔بیلسٹک میزائل کو ایران کے اہم ترین ہتھیاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکا کے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس آفس کے مطابق ایران کے پاس خطے میں سب سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں۔یہاں ایران کی دفاعی قوت اور میزائل پروگرام کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔
ایرانی میزائل کہاں تک مار کر سکتے ہیں؟
ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی ’اسنا‘ نے اپریل میں ایک گرافک شائع کی تھی جس کے مطابق ایران کے پاس ایسے 9طرح کے میزائل ہیں جو اسرائیل تک مار کر سکتے ہیں۔ان میں ’سجیل’ نامی میزائل ہے جو 17 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 2500 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ میزائل ’خیبر‘ کی رینج 2ہزار کلو میٹر ہے اور ’حاج قاسم‘ 1400 کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے۔واشنگٹن میں قائم غیر سرکاری تنظیم دی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس مختلف رینج کے بیلسٹک میزائل ہیں۔ان میں ’شہاب تھری‘ 700 کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے اور ’شہاب تھری‘ کی رینج 800 سے 1000 کلومیٹر تک ہے۔ ’عماد ون‘ نامی میزائل پر کام ہو رہا ہے جس کی رینج 2ہزار کلو میٹر ہے جب کہ 1500 سے 2500 کلو میٹر تک مار کرنے والے ’سجیل‘ میزائل پر بھی کام ہو رہا ہے۔
اسرائیل پر کس نوعیت کے میزائل فائر کیے گئے؟
برلن سے تعلق رکھنے والے ایرانی میزائل پروگرام کے ماہر فیبیئن ہنز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی وڈیوز اور اسرائیل تک پہنچنے والے میزائلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران نے ٹھوس اور مائع ایندھن والے دونوں طرح کے میزائل فائر کیے ہیں۔ٹھوس ایندھن والے میزائل قدرے جدید ہیں اور انہیں ایک خاص زاویے پر جھکے موبائل لانچرز سے فائر کیا گیا ہے جب کہ مائع ایندھن والے میزائل عمودی لانچرز سے فائر کیے گئے ہیں۔منگل کو داغے گئے ٹھوس ایندھن والے میزائل ’حاج قاسم‘، ’خیبر شکن‘، اور ’فتح ایک‘ ہو سکتے ہیں۔ غالب امکان یہ ہے کہ مائع ایندھن والے میزائل اصفہان سے لانچ کیے گئے ہیں جو ’عماد‘، ’بدر‘ اور ’خرم شہر‘ ہو سکتے ہیں۔ایران کا کہنا ہے کہ بیلسٹک میزائل اس کے دفاع کا اہم جز ہے اور امریکہ، اسرائیل اور خطے میں اس کے ممکنہ اہداف کے لیے اس کے ردِ عمل کی قوت ہے۔ تہران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں سے انکار کرتا ہے۔
ایران کے میزائل پروگرام نے کتنی ترقی کی؟
امریکا کی فاؤنڈیشن فور ڈیفینس اینڈ ڈیموکریسز کے سینئر فیلو بہنام بن طالبلو کی 2023 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے زیرِ زمین میزائل ڈپو بنانے پر کام جاری رکھا ہوا ہے جن کے ساتھ ٹرانسپورٹ اور فائرنگ سسٹم بھی منسلک ہے۔اس کے علاوہ ایران نے زیر زمین میزائلوں کی تیاری اور ذخیرہ کرنے کے مراکز بھی بنا لیے ہیں۔ جون 2020 ء میں ایران نے پہلی بار زمین کے نیچے سے پہلا میزائل فائر کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برسوں میزائلوں کی ریورس انجینئرنگ اور مختلف نوعیت کے میزائل کی تیاری سے اسرائیل نے میزائلوں کی بیرونی ساخت میں بہتری کی ہے اور میزائل کی رینج بڑھانے کے لیے اس میں ایسے مواد کا استعمال کیا ہے جس سے اس کا وزن کم سے کم رکھا جا سکے۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے جون 2023 ء میں رپورٹ کیا تھا کہ تہران نے اپنا پہلا مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل تیار کر لیا ہے۔ ہائپر سونک میزائل کم از کم آواز کی رفتار سے کم از کم 5گنا زیادہ تیزی سے پرواز کر سکتا ہے اور ہوا میں اس کی پیچیدہ حرکت کی وجہ سے اسے مار گرانا بہت مشکل ہے ۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق ایران کا میزائل پروگرام زیادہ تر شمالی کوریا اور روس کے ڈیزائنز پر بنایا گیا ہے اور اس نے چین سے بھی بھرپور مدد لی ہے۔ایران کے پاس کروز میزائل بھی ہیں جن میں ’کے ایچ 55‘ شامل ہے جسے فضا سے لانچ کیا جا سکتا ہے اور یہ 3000 کلو میٹر تک جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی طرح ایک جدید ترین میزائل ’خالد فرز‘ جہاز شکن میزائل بھی ہے جو 300 کلومیٹر تک ایک ٹن سے زائد اسلحہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایران نے اسرائیل پر میزائل کیوں داغے؟
اسرائیل کے مختلف علاقوں میں منگل کی شام سائرن بج رہے تھے اور لوگوں کو فوراً محفوظ مقامات کی طرف جانے کی ہدایات دی جا رہی تھیں۔ بعدمیں اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ ایران سے داغے جانے والے 180 میزائلوں کی نشان دہی کی گئی ہے اور امریکا کے تعاون سے بیشتر میزائل ناکارہ بنا دیے گئے ہیں۔ لیکن کچھ میزائل گرنے سے عمارتوں کو نقصان پہنچا اور آگ بھڑک اْٹھی۔امریکی اور برطانوی حکام کے مطابق ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 میزائل داغے۔ ایران نے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد یہ بھی کہا ہے یہ حملوں کی پہلی لہر ہے۔ البتہ تہران نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔ایران کی اس کارروائی کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست جنگ کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں تو وہیں مختلف ممالک کشیدگی کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ایران نے اسرائیل پر حملے کو حماس کے مقتول رہنما اسماعیل ہنیہ اور لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کا بدلہ قرار دے رہا ہے۔ اسماعیل ہنیہ رواں برس جولائی میں تہران میں اْس وقت شہید کردیے گئے تھے جب وہ نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری کے بعد سرکاری مہمان خانے پہنچے تھے۔ ایران نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو اسرائیل کی کارروائی قرار دیا تھا۔ تاہم اسرائیل نے اس حوالے سے تاحال کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے جب کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ گزشتہ ہفتے بیروت میں اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل حملے کو دفاع میں کیا جانے والا حملہ قرار دیا ہے۔ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کو تہران میں ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا کہ ہم نے سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے امریکا کو پیغام دیا ہے کہ وہ تنازع میں مداخلت نہ کرے۔ اگر اسرائیل کی حمایت میں کوئی بھی تیسرا فریق ہمارے خلاف کسی بھی قسم کے آپریشن کا حصہ بنا تو تہران کی جانب سے شدید ردِعمل آئے گا۔اسرائیل پر منگل کو ایرانی حملوں کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ تہران کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔اس سے قبل اپریل میں ایران نے اسرائیل پر لگ بھگ 300 میزائل داغے تھے جن میں سے بیشتر کو اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائل سسٹم کے ذریعے راستے میں ہی روک لیا گیا تھا۔ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ اپریل میں دمشق میں اس کے قونصل خانے پر حملے میں اسرائیل ملوث ہے، لہٰذا اسرائیل سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔اس حملے میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سینئر کمانڈر سمیت 7افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران کا میزائل حملہ اسٹرٹیجک نہیں،
ٹیکٹیکل اقدام دکھائی دیتا ہے‘ تجزیہ کار
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کے عسکری اقدامات نے مشرق وسطی میں جنگ کے خطرات کو اچانک کئی درجے بڑھا دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق صورتحال نے امریکی کردار کو بھی کئی حوالوں سے نمایاں کر دیا ہے۔ موجودہ کشیدگی کے وسیع تر جنگ میں تبدیل ہونے پر 2بڑے عوامل اثر انداز ہوں گے۔ ایک یہ کہ ایران اپنی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں کو پہنچنے والے نقصان کے وقت کیا آپشنز استعمال کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کہاں تک اس جنگ کو پھیلانے کے لیے تیار ہیں؟
ایران کے پاس کیا آپشن ہیں؟
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر اور بین الاقوامی تعلقات کے نائب صدر پال سیلم کہتے ہیں کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت نے خطے میں زلزلے کا کام کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد تہران اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔ ان پر خطر حالات میں ایران کی ایک راہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے، اسرائیل کے حملے کی شدت میں کمی کرنے، اسے سست کرنے یا روکنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح ایران ایک مؤثر طریقے سے برسوں کا وقت خرید سکتا ہے۔ ایران کے آپشن میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی مجموعی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور حزب اللہ کی قیادت اور صلاحیتوں کو از سر نو تعمیر کرے۔ تہران یہ آپشن بھی اختیار کرسکتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے ایک زیادہ طاقتور ڈیٹرنٹ بنائے، جو ایک جوہری ہتھیار ہو گا۔لیکن اس کے لیے ہو سکتا ہے بہت دیر ہو چکی ہو۔ اگر ایران اب اس کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسرائیل امریکا کی حمایت کے ساتھ ایرانی سیکورٹی اور جوہری تنصیبات،اور دیگر پر جہاں تک ممکن ہو سکے گا فضائی حملے کرے گا۔ ان سب ممکنات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ نیتن یاہو آگے کی کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ اسرائیلی اقدامات کے نتیجے میں حماس اور حزب اللہ سمیت ایران کی حمایت یافتہ اور مشرق وسطی میں فعال تنظیموں کے رہنماؤں کے قتل کے بعد تہران سمجھتا ہے کہ نئے چیلنجوں کی بھرمار کی اس صورت حال میں اسے کچھ نہ کچھ جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔ واشنگٹن میں امریکی یونیورسٹی کے ابن خلدون اسلامک اسٹڈیز کے چیرمین پروفیسر اکبر احمد اس ضمن میں کہتے ہیں کہ ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ ایک ٹیکٹیکل اقدام دکھائی دیتا ہے۔ ایران عام طور پر سو چی سمجھی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا یہ میزائل حملہ کوئی اسٹرٹیجک اقدام نہیں بلکہ ایک ٹیکٹیکل موو دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اسے اتنی امریکی حمایت حاصل ہے کہ وہ بیک وقت کئی محاذوں پر کارروائیاں کر سکتا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ، لبنان پر زمینی حملے اور حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کے تناظر میں مشرق وسطی کی صورت حال بہت خطرناک اور نازک لگتی ہے کیونکہ اس کے بہت سے ان دیکھے مضمرات سامنے آ سکتے ہیں۔ پوری دنیا کو مشرق وسطی میں وسیع جنگ کے غیر ارادی نتائج کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔ اگر ایران پر بڑے پیمانے پر حملہ ہوتا ہے اور روس ایران کی کھل کر مدد کرتا ہے اور چین پوشیدہ طور پر ایران کی مدد کرتا ہے تو یہ پہلی عالمی جنگ کے آثار کی طرح کی صورت حال لگتی ہے جب آسٹر و ہنگری سلطنت کے وارث آرچ ڈیوک فرانز فرڈینیڈ کے سرائیوو میں قتل کے بعد دنیا کو جنگ عظیم کے بھیانک نتائج جھیلنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ اسرا ئیل کا جنوبی لبنان پر زمینی حملہ دریائے لیتانی تک دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے ہو۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حملہ ایک عارضی آپریشن ہوگا یا طویل مدتی فوجی موجودگی۔ طویل مدتی آپریشن کی صورت میں حزب اللہ اور ایران اس کا خیرمقدم کریں گے، کیونکہ وہ ایک بار پھر یہ دعویٰ کر سکیں گے کہ وہ لبنانی سرزمین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ نیتن یاہو ایک جنگ سے دوسری جنگ کی طرف دوڑتے رہیں گے،غزہ، پھر لبنان، پھر ایران، یا پھر وہ امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گے اور 2025 میں ایران کے حوالے سے اپنے آپشن پر غور کریں گے۔ اگرچہ گزشتہ سال میں امریکا اور بین الاقوامی ثالثی کی کوششیں بڑی حد تک بے اثر ثابت ہوئی ہیں موجودہ حالات ایک اہم سفارتی موقع فراہم کرتے ہیں۔ ایران کے پاس موقع ہے کہ وہ دنیا پر یہ واضح کردے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام اور پراکسی ملیشیا کے نیٹ ورک کو ترک کر تا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے گا۔ یہ بہت مشکل موقف دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ایرانی رہنما ایسا فیصلہ کریں تو ایرانی عوام اس کی حمایت کریں گے۔ اسرائیل کو بھی ایک ایسی ہی پیشکش کی جا سکتی ہے کہ آیا تو وہ اپنے فوجی عروج اور فتح کے لمحات میں مزید کئی دہائیوں کے قبضے سے پیدا ہونے والی مزاحمت، انتقام اور بار بار چلنے والی جنگ دیکھ لے یا پھر اس تاریخی لمحے سے فائدہ اٹھا کر عرب اور مسلم دنیا کی طرف سے بڑھائے گئے ہاتھ کو قبول کر کے اسرائیل فلسطین بحران کا پائیدار دو ریاستی حل کی طرف آئے تاکہ ایک پرامن مشرق وسطی کی جانب پیش رفت ہو سکے۔ اس وقت ایران کے صدر مسعود پزشکیان ایک اعتدال پسند شخصیت ہیں۔