قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

490

قوموں کے لیے ان کا نظریاتی تشخص زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے چنانچہ کوئی قوم اپنے نظریاتی تشخص کو مسخ کرنے کے عمل کو قبول نہیں کرتی۔ ٹروٹسکی روسی انقلاب کے بانیوں میں سے تھا مگر سوشلسٹ انقلاب کی تشریح کے سلسلے میں اس کا روسی انقلاب کے رہنما لینن کے ساتھ اختلاف ہو گیا۔ لینن نے اس اختلاف کو برداشت نہیں کیا۔ وہ ٹروٹسکی کے پیچھے پڑ گیا۔ ٹروٹسکی کو جان کا خطرہ ہوا تو وہ ملک سے فرار ہوگیا مگر روس کی خفیہ ایجنسی نے اسے بیرون ملک تلاش کرکے مار دیا۔ ڈینگ ژیائو پھنگ جدید چین کا بانی ہے مگر چین میں انقلاب آیا تو اس نے مائو کے انقلابی تناظر سے اختلاف کا اظہار کردیا۔ مائو نے لی پھنگ کو جیل میں ڈال دیا۔ ایزرا پاونڈ امریکا کا شاعر اعظم تھا مگر اس نے اٹلی جا کر مسولینی کی تعریف کردی۔ اس بات پر امریکی حکومت بھڑک گئی اور امریکی سی آئی اے ایزرا پاونڈ کے پیچھے پڑ گئی۔ نوبل انعام یافتہ شاعر ٹی ایس ایلٹ ایزرا پاونڈ کا شاگرد تھا اس نے دوسرے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ مل کر ایزرا پاونڈ کو نفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیا اور اسے نفسیاتی مریض قرار دلوا کر اس کی جان بچائی۔ امریکا کی ممتاز دانش ور سُوسن سونٹیگ نے ایک بار کہہ دیا کہ امریکا کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ ہر طرف سے اس کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگیں، لیکن پاکستان کا معاملہ عجیب ہے۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی آئے دن پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر کلہاڑا چلاتے رہتے ہیں مگر ان کے پیچھے نہ کوئی ایجنسی لگتی ہے، نہ کوئی ان کا منہ بند کراتا ہے اور تو اور ذرائع ابلاغ تک اس بات کا نوٹس نہیں لیتے۔ معید پیرزادہ پاکستان کے معروف صحافی ہیں اور ان دنوں بیرون ملک مقیم ہیں۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص پر حملے کا کوئی برا نہیں مانتا، چنانچہ انہوں نے اپنے ایک وی لاگ میں اسلام کو پاکستانی قوم کے اتحاد کے لیے ناکافی قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کیا کہا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ معید پیرزادہ نے کہا۔
’’اس کا ایک پہلو قومیت ہے کہ کیسے پاکستان ایک قوم نہیں ہے بلکہ ایک فیڈرل فریم ورک ہے۔ ایک مجموعہ ہے۔ پنجابی، بلوچ، سندھی، مہاجر، اردو اسپیکنگ، کشمیری، گلگت، بلتستان، پشتون، مختلف قسم کے لوگ ہیں اور ان کو ایک Different قسم کا constitutional فریم ورک چاہیے۔ ایک دن پہلے جب میں نیوجرسی میں تھا اور وہاں پر ایک دن جب سیمینار ڈسکشن ہورہی تھی تو وہاں ایک بڑا Interesting ڈائیلاگ تھا جس میں Dawn کے ایک بہت تجربے کار Cores Pondent ہیں جناب انور اقبال صاحب۔ وہ لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہے تھے کہ دیکھیے پاکستان ایک قوم نہیں ہے، بنگلا دیش کی مثال دے رہے تھے کہ بنگالی ایک قوم ہیں لیکن ہم پاکستان ایک قوم نہیں ہیں بلکہ مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں تو چھوٹی قومیتیں خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ بہت بڑی debates ہے۔ سوشل سائنسز کی ڈیبیٹ ہے۔ یہ پولیٹیکل سائنس کی ڈیبیٹ ہے۔ لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہیں جب ایک تو مختلف قومیتوں کو لے کر چلنا ہوتا ہے تو پھر آپ کو انہیں ایک کانسٹی ٹیوشنل فریم ورک دینا ہوتا ہے۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ نعرہ نہیں مارنا چاہیے کہ ہم سب ایک قوم ہیں اور ہماری ایک کتاب ہے اور ہمارا ایک مذہب ہے تو ہم ایک قوم بن جاتے ہیں۔
اب یہ قوم، قومیت Subnationalism کے حوالے سے میں دو مثالیں آپ کے سامنے رکھنا ہوں۔ پہلی example کانگریس ورسز مسلم لیگ کی ہے۔ جب کانگریس کی Insistence یہ تھی کہ ہم ہندوستانی ایک قوم ہیں کیونکہ ہمیں برٹش انڈین ایمپائر میں اکٹھا کردیا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مغلوں کے بعد برٹش انڈین ایمپائر ایک امپائر تھی جس میں بہت سی قومیں رہ رہی تھیں اور وہ برٹش ایمپائر کے فریم ورک میں اکٹھی تھیں اور جب برٹش ایمپائر ہندوستان سے Withdraw کررہی تھی تو ہمیں ایک نیا پولیٹیکل کانٹریکٹ چاہیے تھا تو کانگریس اور مسلم لیگ میں وہ کانٹریکٹ نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ برٹش ایمپائر کی division ہوئی اور میں یہ سمجھنے لگا ہوں کہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگر مسلم لیگ اور کانگریس میں زیادہ تدبر ہوتا عقل ہوتی وژن ہوتا۔ دوسری example 1947ء کے بعد ہے جب بنگالی قوم کا ایک کلچر تھا، ایک تہذیب و تمدن تھی، ایک زبان تھی جس سے وہ پیار کرتے تھے، ان کا اپنا ایک انٹرنل کمیونیکیشن سسٹم تھا، ان کے اپنے الگ، جداگانہ پولیٹیکل سوشل ایڈریس تھے لیکن ہم مسلسل یہ نعرہ مارتے رہے کہ ہم ایک قوم ہیں‘‘۔
اقبال بیسویں صدی کے بڑے عبقریوں میں سے ایک ہیں۔ اتفاق سے وہ ’’مصور پاکستان‘‘ بھی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اقبال جیسی عظیم شخصیت قومیت کے تصور کو کس تناظر میں دیکھتی تھی۔ اقبال نے کہا۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
٭٭
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
٭٭
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
٭٭
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
٭٭
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
٭٭
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا
اقبال کے ان اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں قومیت کی بنیاد نہ نسل ہے، نہ جغرافیہ ہے، نہ زبان ہے بلکہ صرف اسلام ہے۔ اور یہ اقبال کی اپنی ذاتی اور انفرادی فکر نہیں۔ یہ فکر قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن مسلمانوں سے صاف کہتا ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو اور اللہ کی رسّی اللہ کی آخری کتاب قرآن پاک اور اسوئہ حسنہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے جب مدینے ہجرت کی تو ایک روز ایک مہاجر اور ایک انصار میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ جھگڑے کے دوران مہاجر نے اپنی مدد کے لیے مہاجروں کو پکارا اور انصاری نے انصار کو آواز دی۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھ جاتی کسی نے جا کر رسول اکرمؐ کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ رسول اکرمؐ فوراً جائے وقوع پر پہنچے اور لڑنے والوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اسلام نے تمہیں جن عصبیتوں کے گڑھوں سے نکالا تھا تم پھر انہی گڑھوں میں پڑنے کی تیاری کررہے ہو۔ رسول اکرمؐ نے اپنے آخری خطبے میں صاف کہا ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کالے اور کالے کی گورے پر فوقیت نہیں۔ اسلام میں فضیلت ہے تو صرف دو چیزوں میں۔ ایک تقویٰ اور دوسرا علم۔ لیکن معید پیرزادہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں قومی اتحاد کے لیے اسلام کافی نہیں بلکہ ہمیں ایک آئینی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ ارے بھائی جس ملک کے جرنیل اور سیاست دان قرآن و سنت کو نہیں مانتے اس ملک کے جرنیل اور سیاست دان کسی آئینی بندوبست کو کیسے مانیں گے؟
یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ ہمارے جرنیلوں اور سیاسی حکمرانوں نے اسلام کو کبھی قوم کے اتحاد کی اساس بنایا ہی نہیں۔ جنرل ایوب نے کراچی میں مہاجر پٹھان فساد کرایا۔ شیخ مجیب کے چھے نکات کو بنگالیوں کی پاکستان سے علٰیحدگی کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے مگر ممتاز وکیل ایس ایم ظفر نے پچیس تیس سال پہلے ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ شیخ مجیب کے بدنام زمانہ چھے نکات جنرل ایوب کے وزیر اطلاعات الطاف گوہر نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کو دیے تھے۔ الطاف گوہر اس وقت نوائے وقت میں کالم لکھ رہے تھے۔ انہوںنے اپنے ایک کالم میں ایس ایم ظفر کے دعوے کی تردید کی تو ایس ایم ظفر نے الطاف گوہر سے کہا کہ زیادہ بک بک نہ کریں میرے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ شیخ مجیب کے چھے نکات آپ ہی نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کو دیے تھے۔ ایس ایم ظفر کے اس بیان کے بعد الطاف گوہر چپ ہوگئے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھٹو کے لسانی بل اور کوٹا سسٹم نے سندھ میں سندھی مہاجر کشمکش پیدا کی۔ جنرل ضیا الحق نے کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے الطاف حسین کی لسانی سیاست کو چار چاند لگائے۔ جنرل پرویز مشرف نے کھل کر ایم کیو ایم کی سرپرستی کی۔ میاں نواز شریف نے آئی جے آئی کے زمانے میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا اور ان کی جماعت اب بھی پنجاب میں ’’پنجابیت‘‘ کی بنیاد پر سیاست کررہی ہے۔ بدقسمتی سے معید پیرزادہ کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ رنگ، نسل، جغرافیہ اور زبان کی پرستش اسلام کے نزدیک بتوں کی پرستش ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
معید پیرزادہ پاکستانی قوم کو اس سے بھی چھوٹے بتوں کی پوجا کا درس دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں ہم ایک قوم تھوڑی ہیں۔ ہم تو صرف پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور مہاجر ہیں اور ہمیں یہی رہنا بھی چاہیے۔ اقبال نے قومیتوں کو کیا خود ’’وطن‘‘ کو بھی ایک چھوٹا خدا قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے