موجودہ جمہوریت جو مغربی افکار اور یورپ کی نشاۃ الثانیہ کے نتیجے میں پروان چڑھی ہے اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ریاست کو چلانے کے لیے تین آزاد اور خود مختار ادارے یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ بنائے جائیں جو ایک دوسرے کے اثرات سے مکمل طور پر آزاد ہوں جبکہ ان کا مشترکہ مقصد ایک ہی ہو وہ یہ کہ ہر اس عمل کو بروئے کار لایا جائے جس کے نتیجے میں ریاست کے عوام کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلے میں یہ کوشش بھی کی گئی کہ ان اداروں میں ایک طرف طاقت کا توازن قائم کیا جائے اور دوسری طرف کوئی ادارہ ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہ کرے۔ ہمارے سامنے مغربی جمہوریت کے دو ماڈل ہیں ایک انگلینڈ اور دوسرا امریکا۔ انگلستان کی ریاست میں پارلیمانی طرزِ حکومت قائم ہے جہاں عدل تو اپنی الگ آزاد حیثیت میں موجود ہے لیکن جو ارکان الیکشن کے نتیجے میں ہاؤس آف کامن کا حصہ بنتے ہیں ان کی اکثریت اپنا وزیر ِ اعظم منتخب کرتے ہیں جو اپنی کابینہ کے ذریعے انتظامیہ یعنی کیبنٹ کو تشکیل دیتا ہے۔ اور یوں انتظامیہ اور مقننہ گڈ مڈ ہو کر یکمشت ہو جاتے ہیں۔ جبکہ امریکی ماڈل وہ ہے جہاں مقننہ کے اراکین اپنا صدر تو منتخب کرتے ہیں لیکن وہ صدر اپنی کابینہ بنانے کے لیے پابند نہیں کہ وہ کانگریس میں موجود اپنی جماعت کے اراکین کو شامل کرے۔ وہ باختیار ہے کہ کانگریس کے باہر سے ٹیکنوکریٹس کو بھی اپنی کابینہ میں وزیر یا مشیر بنا سکتا ہے۔ دوسری طرف قانون سازی کے لیے حکومتی پارٹی کے اراکین بھی اپنے ووٹ کے استعمال میں آزاد ہوتے ہیں۔ اس صدارتی طرزِ حکومت میں عدلیہ پر بھی کوئی ایسا دباؤ نہیں بن پاتا جس کی وجہ سے عدلیہ کی آزادی کوئی پر حرف آئے۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں جہاں مقننہ اور انتظامیہ ایک ہی جماعت کے تصرف میں آنے کی وجہ سے طاقت کے توازن بگڑ سکتا ہے وہاں اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے آئین میں عدالت ِ عظمیٰ کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ اگر پارلیمان میں موجود اکثریتی جماعت جو مقننہ اور انتظامیہ دونوں پر کارمختار ہے، اس کے کسی حکم سے عوام کے بنیادی حقوق پر ضرب لگ سکتی ہو تو عدلیہ از خود نوٹس لے کرحکومت ِ وقت کو ایسا کرنے سے روک دینے کا حکم جاری کر دے۔
چونکہ پاکستان میں پارلیمانی طرزِ حکومت نافذ العمل ہے اس لیے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 184(3) میں عدالت ِ عظمیٰ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان بنیادی حقوق جن کاذکر آئین کے آرٹیکل 8 تا 28 میں کیا گیا ہے کے ضمن میں کسی درخواست یا مقدمے کی غیرموجودگی کے باوجود از خود حکم نامہ جاری کر سکتی ہے۔ ان حقوق میں فرد کی سلامتی، گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ، غلامی اور بیگار کی ممانعت، کسی سزا کا ماضی سے اطلاق، دوہری سزا سے تحفظ، خود کو زبردستی مجرم ماننے پر مجبور کرنا، شرفِ انسانی کی حرمت، نقل و حرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی، انجن سازی کی آزادی، تجارت، کاروبار اور پیشے کی آزادی، تقریر کی آزادی، مذہبی آزادی، جائداد کے حقوق، شہریوں میں مساوات، عوامی مقامات میں داخلے پر عدمِ امتیاز، ملازمتوں میں مساوات، زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کی یقین دہانی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ آرٹیکل 184 عدالت عظمیٰ کی اوریجنل جیورزڈکشن کے متعلق ہے جس میں عدالت عظمیٰ کو صوبائی حکومتوں کے مابین یا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مابین تنازعات پر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ہونے والے فیصلے محض اعلانیہ نوعیت کے ہو سکتے ہیں جن پر فریقین کی باہمی رضا مندی سے عملدرامد کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی صوبائی یا وفاقی حکومت کو زبردستی عملدرامد پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کی سو موٹو شق کا کتنی بار استعمال مختلف منصفین ِ اعظم نے کیا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 2001ء تک از خود نوٹس کے معاملات شاذ و نادر اور کمیاب نظر آتے ہیں۔ جسٹس شیخ ریاض احمد جو یکم فروری کو منصف ِ اعظم بنے انہوں نے چار مرتبہ اس قانون کا استعمال کیا، جسٹس ناظم حسن صدیقی 31 دسمبر 2003 کو اس عہدے پر فائز ہوئے اور انہوں نے 6 بار اس قانون کو انوک کیا، جسٹس افتخار محمد چودھری نے 79 بار اس قانون کو استعمال کر کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ بعدازاں اس آرٹیکل کو سب سے زیادہ روبعمل لانے والے جسٹس ثاقب نثار ہیں جنہوں نے اپنی دو سالہ مدتِ منصف ِ اعظم کے دوران اس شق کو 47 بار ایکٹیویٹ کیا۔
اس ضمن کے چند مشہور کیسز میں سموسہ قیمت کیس، عیتقہ اوڈھو شراب کیس، حج کرپشن کیس، رینٹل پاور کیس، شاہ زیب قتل کیس، وحیدہ شاہ تھپڑ کیس اور سرفراز شاہ قتل کیس جسٹس افتخار احمد نے کیے۔ جبکہ جسٹس ثاقب نثار کا خدیجہ صدیقی حملہ کیس اور جسٹس عمر عطا بندیال کا ارشد شریف قتل کیس پاپولر ہوئے۔
جب بار بار اس قانون کا استعمال ہوا جن میں سے کئی کیسز بنیادی حقوق کی تعریف کے زمرے میں بھی شامل نہیں ہوتے تھے۔ اور بیش تر معاملات کی زد حکومت ِ وقت پر پڑتی تھی تو یہ سوال کھڑا ہوا کہ یہ آئینی اختیار تو پوری عدالت عظمیٰ کی مشترکہ متاع ہے جبکہ اسے ہمیشہ صرف چیف جسٹس ہی استعمال کرتا ہے جس میں اس کی ذاتی پسند اور ناپسند بھی شامل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مقننہ اور انتظامیہ کو تشویش لاحق ہوئی اور انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ قانون 21 اپریل 2023 کو پارلیمان نے منظور کر لیا۔ اس کے سیکشن 2 میں یہ طے کیا گیا کہ ہر کیس، اپیل یا معاملہ جو عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہو اس کی شنوائی اور فیصلہ ایک بنچ کرے گا جس کی تشکیل ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ججز شامل ہوں گے۔ سیکشن 3 میں یہ طے کیا گیا کہ اگر عدالت عظمیٰ کی اورجنل جیورزڈکشن کا آئین کے آرٹیکل 184 کی کلاز 3 یعنی سوموٹو نوٹس لینا مقصود ہو تو اس معاملے کو پہلے اس کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا جو سیکشن 2 کے تحت بنائی گئی ہو اور وہ کمیٹی اگر مطمئن ہو کہ از خود نوٹس کا معاملہ واقعی عوام کے بنیادی حقوق کے نفاذ سے تعلق رکھتا ہے تو وہ کمیٹی ایک سہ رکنی بنچ تشکیل دے کر معاملہ اس کے حوالے کر دے گی۔ اس طرح حکومت ِ وقت نے اس معاملے کو پیچیدہ اور وقت طلب بنا کر خود کو عدلیہ کے از خود نوٹس کی زد میں آنے سے بچانے کا سامان تو 2023 اپریل میں فراہم کر لیا تھا۔ مگر ایک طرف عدلیہ اور دوسری طرف مقننہ اور انتظامیہ کی سرد جنگ ہنوز ٹھنڈی نہیں پڑی عدلیہ کو مزید لگام ڈالنے کی خاطر پریکٹس اینڈ پروسیجر کے صدارتی آرڈیننس 2024 کا اجرا بھی حال ہی میں کر دیا گیا ہے جس سے معاملات مزید الجھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جن پر آئندہ گفتگو ہو گی۔